کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 120
عظیم﴾کا خطاب دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا :
(( أدبني ربي فأحسن تأدیبي)) (جامع الصغیر :۲۴۹)
’’میرے ربّ نے مجھے آداب سکھائے اور بہترین آداب سکھائے۔‘‘
٭ حسان بن ثابت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا :
وأحسن منک لم تر قط عیني وأجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کــل عیـب کـأنک قد خلقت کما تشاء
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خوبصورت آج تک میری آنکھ نے نہیں دیکھا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین و جمیل کسی ماں نے نہیں جنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نقص و عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا ایسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفاتِ حمیدہ کا شدید دشمنوں نے بھی اعتراف کیا، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شہادتوں اور تزکیوں کے چنداں محتاج نہیں ہیں !!
ہم آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ عالیہ اور اعلیٰ محاسن کو یاد کرنے جمع نہیں ہوئے،ہم ان میں کبھی شک نہیں کرسکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہ اولادِ بنی آدم کے سردار، تقویٰ و طہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ لوگو! آج جھوٹے اور سچے کی تمیز کا وقت آگیا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم صدیوں سے مسلط ذلت و رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیں ۔ ہر جگہ مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے لیکن کوئی اس پر کان دھرنے والا نہیں ۔ آج چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ہماری چیخ و پکار کی بازگشت بھی ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ ہم کب تک نفرت و حقارت کی تصویر بنے رہیں گے ۔کیا آج ہم سے بھی بڑھ کر کوئی رسوا اس دنیا میں موجود ہے؟ ایساسب کچھ کیوں …؟
اس لئے کہ جب ہم نے اپنے پروردگار کے اوامر کا احترام چھوڑ دیا تو اللہ نے لوگوں کے دلوں سے ہمارا رعب ختم کردیا۔اگر ہم اپنے ربّ کا حکم مانتے تو آج ہمیں ان ذلتوں سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ اگر ہم سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رستے کا چراغ بناتے تو آج خوف وسراسیمگی کی یہ خوفناک حالت ہم پر طاری نہ ہوتی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مرض کی تشخیص چودہ سو سال پہلے کرکے اس کا علاج بھی بتا دیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
[1] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵ء، ص۱۱
[2] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵، ص۱۳
[3] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵، ص۱۳
[4] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵، ص۱۳