کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 118
پر میرے پروردگار کی طرف سے بے شمار درود و سلام ہو۔
اللہ کی قسم! اگر آج اس عظیم ترین انسان کا دفاع نہ کیا گیا تو روے زمین کی رونقوں اور بھلائیوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور دنیا ویران ہوجائے گی۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرجلوہ گر ہوتے تو وہ کانپنے لگتا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے لئے منبر پر چڑھتے تو آواز بلند ہوجاتی ، چہرہ سرخ ہوجاتا،یوں محسوس ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حملہ آور لشکر کی اطلاع دینے والے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبودیت کی سیڑھی پر سوار ہوکر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے، اس روز جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد ِحرام سے بیت المقدس تک سیر کروائی :
أَسرى بِكَ اللَهُ لَيلاً إِذ مَلائِكُهُ وَالرُسلُ فى المَسجِدِ الأَقصى عَلى قَدَمِ
لَمّا خَطَرتَ بِهِ اِلتَفّوا بِسَيِّدِهِم كَالشُهبِ بِالبَدرِ أَو كَالجُندِ بِالعَلَمِ
صَلّى وَراءَكَ مِنهُم كُلُّ ذى خَطَرٍ وَمَن يَفُز بِحَبيبِ اللَهِ يَأتَمِمِ
جُبتَ السَماواتِ أَو ما فَوقَهُنَّ بِهِم عَلى مُنَوَّرَةٍ دُرِّيَّةِ اللُجُمِ
رَكوبَةً لَكَ مِن عِزٍّ وَمِن شَرَفٍ لا فى الجِيادِ وَلا فى الأَينُقِ الرُسُمِ
مَشيئَةُ الخالِقِ البارى وَصَنعَتُهُ وَقُدرَةُ اللَهِ فَوقَ الشَكِّ وَالتُهَمِ
اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی انسان کی زندگی کی قسم نہیں کھائی، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:﴿لَعَمْرُکَ إِنَّھُمْ لَفِيْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَہُوْن﴾ (الحجر :۷۲)
’’تیری جان کی قسم! اے نبی، اس وقت اِن پر نشہ چڑھا ہوا تھا، جس میں وہ آپے سے باہر ہوئے جاتے تھے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ’’ما خلق ﷲ وما ذرع نفسًا أکرم من محمد صلی اللہ علیہ وسلم وما سمعتُ ﷲ أقسم بحیاۃ أحد غیرہ‘‘ (تفسیرطبری: ۱۴/۴۴)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ عزت والاکوئی ذی نفس پیدا نہیں کیا۔ اور میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھائی ہو ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربے شمار درودوسلام ہوں ۔ وہ اولاد ِآدم کے سرداراور اس میں کوئی فخر کی بات نہیں ، وہ سب سے پہلے قبر سے اُٹھیں گے، وہ سب سے پہلے سفارش کریں گے اور ان کی
[1] طلوع اسلام، فروری ۱۹۶۰ء، ص۷۰
[2] طلوع اسلام، مارچ ۱۹۷۳ء، ص۵۵
[3] طلوع اسلام، جون ۱۹۷۸ء، ص۴۸
[4] طلوع اسلام، ۲۳ جولائی ۱۹۵۵ء، ص۱۱