کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 116
مسلمانوں کو اپنے ہی سیاسی فلسفے ’ملی وحدت‘ کے احیا کے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
مسلم حکمرانوں کی کاسہ لیسی، اقتدار پرستی اور مغرب نوازی اب ایک پختہ روایت بن چکی ہے، جن سے بہت سی توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔ اُمت ِمسلمہ کے بین الاقوامی ادارے اپنا مقصد ِجواز کھو دیں گے ، اگر وہ اس مرحلے پر اُمت کے اس اجتماعی موقف کو کوئی نتیجہ خیز شکل دینے پر قادر نہیں ہوتے۔
الغرض ہماری نظر میں اس مرحلہ پر مسلمانوں کا اسلام کی طرف رجوع، اجتماعی وانفرادی سطح پر اسلامی احکامات کو اپنانا، مسلم حکمرانوں کو پوری مسلم اُمہ کو سیاسی وحدت میں پرونے اور مشترکہ قوت کی طرف بڑھنے کے لئے اس موقع سے فائدہ اُٹھانا اور عالمی اسلامی تنظیموں کو اس موقع پر اُمت کے اجتماعی موقف سے مستقل نوعیت کے فوائد کی طرف پیش بندی کرنا ہی ایسا حاصل ہے، جس کے نتیجے میں مستقل نوعیت کے تحفظ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان وعظمت کا تعلق ہے تو ان کفار ملحدین کے کہنے سے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کا ربّ ذو الجلال ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ کی نوید سناتا ہے اور اس کے دشمنوں کو ﴿إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الاَبْتَر﴾کی وعید دیتا ہو، اس کی شان کو ایسے حقیر ہتھکنڈوں سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ ہے :
﴿إِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَہْزِئِیْنَ الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰه ِ إِلـٰہًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَأْتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾ (الحجر:۹۵ تا ۹۹)
’’ہم تیری توہین کرنے والوں کو خوب کافی ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ بھی دوسرا الٰہ کھڑا کرتے ہیں ، عنقریب اُنہیں پتہ چل جائے گا۔ ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی اس تمسخرانہ حرکتوں سے تیرا سینہ تنگ ہوتا ہے (لیکن ان کی پرواہ مت کر) اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر اور سجدہ کرنیوالوں میں سے ہوجا۔ پھر اپنے ربّ کی عبادت کرتا رہ تاآنکہ تجھے موت آجائے۔‘‘ (حافظ حسن مدنی)
[1] طلوع اسلام، مارچ ۱۹۵۲ء، ص۵۲
[2] طلوع اسلام، جون ۱۹۳۸ء، ص۶۶