کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 114
رویے کی واحد بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اپنی حربی قوت سے ان پر رعب وہیبت برقرار رکھیں وگرنہ سب غیر مسلم قومیں مل کر اسلام پر حملہ آور ہوجائیں گی۔ ہماری نظر میں توہین کے ان مسلسل واقعات کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان خلوصِ دل سے اسلام کو اپنی زندگیوں اور اپنے معاشروں پر نافذ کریں ، اپنی حد تک اسلام کی پابندی کو اپنے اوپر لازمی قراردیں اور اسلام کی اس پابندی میں ہرقسم کے شرعی فرض کی تکمیل داخل ہے، جن میں علوم میں اپنی کھوئی ہوئی میراث کو حاصل کرنا اور مسلم قوم کی ہر میدان میں تعمیر کرکے ان کو ایک مضبوط قوم بنانا بھی شامل ہے۔ اگر ہم اسلام کو حرزِ جان بنائیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہماری آنکھوں کا سرمہ ہوں تو اس کے بعد غیر مسلموں کو یہ جرات ہرگز نہیں ہوسکے گی کہ وہ مسلمانوں کے مقدس شعائر اور نامور شخصیات کی بے حرمتی کا خیال بھی دل میں لائیں ۔ آج آیاتِ الٰہی اور فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کے پس پردہ مغرب کا یہ طنز چھپا ہوا ہے کہ وہ ہمیں اپنے شعائر کی حرمت کے تحفظ پر قادر ہی نہیں خیال کرتے وگرنہ ان کو لگاتار یہ رویہ اپنانے کا موقع کیوں کر ملتا۔ ٭ مغربی میڈیا اور حکومتوں کی یہ اسلام سے یہ مضحکہ آرائی مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی اور مفاد پرستی کا بھی نوحہ ہے !! مسلم حکمران اگر آج بھی غیروں کی کاسہ لیسی چھوڑ کر اپنے مسلمان عوام کی رائے کا احترام کریں اور عوام کو اپنی مقبوضہ جاگیر سمجھنے کی بجائے ان کی نمائندگی کا راستہ اختیار کریں تو نہ صرف اس سانحہ سے بلکہ اُمت ِمسلمہ کو درپیش متعدد مسائل سے نجات حاصل کرنے کا باعزت راستہ مل سکتا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ مغربی طرزِ حکومت ملکی حد بندیوں اور چاردیواریوں میں مقید نظامِ حکومت کا تصور پیش کرتا ہے، جبکہ اسلام اللہ کے ماننے والے تمام مسلمانوں کو ایک ملت اسلامیہ اورجسد ِواحد کا تصور دیتا ہے۔ لیکن دنیا کی عملی صورتحال آج بالکل اس کے برعکس ہے۔ اسلام کا یہ سیاسی نظریہ آج مغرب نے اپنے حرزِ جان بنایا ہوا ہے۔ خود تو امریکہ ۵۰ ریاستوں کے ساتھ پورے بر اعظم کو ایک حکومت میں سمیٹے بیٹھا ہے اوردوسری طرف یورپی ممالک نے یورپی یونین کے ذریعے آپس میں ایک دوسرے کو متحد کررکھا ہے۔ آپس میں آمد ورفت کی پابندیوں اور تجارتی بندشوں سے آزاد یورپی ممالک فقط انتظامی لکیروں کی حد تک
[1] طلوع اسلام، مارچ ۱۹۶۶ء، ص۴۹