کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 112
’’مغربی مصنّفین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بدترین چیز پر بھی یقین کرنے کو ہردم آمادہ رہتے ہیں ۔ دوسری طرف جہاں کہیں اپنے کسی مذموم فعل کی کوئی ممکنہ توجیہ اُنہیں میسر آئے، اسے حقیقت تسلیم کرنے میں لمحہ بھر تامل نہیں کرتے۔‘‘ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) کا مقالہ نگار لکھتا ہے: ’’بہت کم لوگ اتنے بدنام کئے گئے جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کیا گیا، قرونِ وسطی کے عیسائیوں نے ان کے ساتھ ہر الزام کو روا رکھا ہے۔‘‘ A History of Medievalکا مصنف جے جے سانڈرز لکھتا ہے: ’’اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی کو عیسائیوں نے کبھی ہمدردی اور توجہ کی نظر سے نہیں دیکھا، جن کے لئے حضرت عیسیٰ کی ہستی ہی شفیق و آئیڈیل رہی ہے۔ صلیبی جنگوں سے آج تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو متنازعہ حیثیت سے ہی پیش کیا جاتا رہا او ران کے متعلق بے سروپا حکایتیں اوربے ہودہ کہانیاں پھیلائی جاتی رہیں ۔‘‘ ( ص ۳۴،۳۵، لندن ۱۹۶۵) عیسائیوں اور غیرمسلموں نے اسلام کی راہ روکنے کے لئے تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین کے علاوہ تنقید کا رویہ بھی اپنایا لیکن اس تنقید کا جواب ہمیشہ سے مسلم علما نے مبرہن انداز میں دیتے ہوئے ان کے اعتراضات کا خاتمہ کیا۔ مذکورہ بالا واقعات کی نشاندہی اور اقتباسات کی پیشکش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان اسلام یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر علمی تبادلہ خیال بھی گوارا نہیں کرتے لیکن تنقید اور توہین میں بڑے بنیادی فرق ہیں ۔ مسلمانوں نے مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دلائل وبراہین کے ساتھ دیا ہے لیکن توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکبین کے خلاف ہمیشہ ہی صداے احتجاج بلندکی او راُنہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی جہدوسعی بروے کار لائے۔ ٭ مذکورہ بالا واقعات کا تسلسل جہاں مغرب کی تنگ نظری اور تعصب کا آئینہ دار ہے وہاں اس میں مسلمانوں کے لئے غور وفکر کا کافی سامان بھی موجود ہے۔کسی قوم کے مذہبی تصورات، شعائر اور مقدس شخصیات کی بے حرمتی کے لگاتار واقعات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ اس کا جسد ِملی کھوکھلا ہوچکا ہے۔ اسلام جو کئی صدیاں دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز رہا ہے، آج ایک مظلوم مذہب میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی عددی اکثریت اور ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسلام کی عالمی پیمانے پر قدر ووقعت روز بروز کم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اس کی وجہ غیروں کی بجائے خود ہمارے اپنے اندر پوشیدہ ہے۔
[1] طلوع اسلام، اگست ۱۹۶۰ء، ص۳