کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 110
تاریخ کو پیش نظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توہین ِاسلام غیرمسلموں کا ایک مسلسل رویہ ہے ، جس کا ارتکاب غیر مسلم ایک تسلسل سے کررہے ہیں اور اس کو کافر حکومتیں لگاتار تحفظ عطا کرتی ہیں ۔ ا س جرم کے مرتکبین ان کی آنکھ کا تارا اور ان کی عنایتوں کا مرکز ومحور ٹھہرتے ہیں ۔ ان واقعات کے بارے میں حسب ِذیل اشارے اس مسلسل رجحان کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں جس کے تدارک کے لئے اُمت ِمسلمہ کو سنجیدگی سے غور کرنا، اس کی وجوہات تلاش کرنا اور اس کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانا ہوں گے : ٭ ۸۰ اور ۹۰ کی دہائیوں میں سلمان رشدی کی شیطانی آیات اور تسلیمہ نسرین کے ناولوں کی اشاعت او رمغرب میں ان کی ریکارڈ تعداد میں فروخت، بعد ازاں ان دونوں ملعون شخصیات کو مغربی حکومتوں کا سرکاری پروٹوکول پیش کرنا اور ان کے گرد حفاظتی حصار قائم کرکے مقبولِ عام شخصیتوں کا درجہ دینا۔ ٭ نواز حکومت کے دوسرے دور میں دو مسیحیوں کا توہین رسالت کا ارتکاب اور راتوں رات اُنہیں جرمنی کی حکومت کے تحفظ میں دینے کے لئے پاکستانی ائیرپورٹوں سے باعزت روانگی ٭ جنوری ۲۰۰۰ء میں انٹرنیٹ پر ایک حیاباختہ لڑکی کے سامنے مسلمان نمازیوں کو اس حالت میں سجدہ میں گرا ہوا دکھایا گیا کہ وہ اس کی عبادت کررہے ہیں ۔ اس پر ہفت روزہ ’وجود‘ کراچی میں توجہ دلائی گئی۔ ٭ ستمبر ۲۰۰۰ء میں انٹرنیٹ پر قرآن کی دو جعلی سورتیں ’دی چیلنج‘کے عنوان سے شائع ہوئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ وہ مظلوم سورتیں ہیں جنہیں مسلمانوں نے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے قرآن سے نکال باہر کیا ہے۔ معاذ اللہ ٭ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں ’دی رئیل فیس آف اسلام‘ نامی ویب سائٹ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چھ تصاویر کے ساتھ ہتک آمیز مضامین شائع کئے گئے، جس میں اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے یہ تاثر اُبھارا گیا کہ مسلمان اپنے سوا تمام دیگر انسانوں بالخصوص یہود ونصاری کوواجب القتل سمجھتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاویر منسوب کرکے یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپ دنیا میں قتل وغارت اور دہشت گردی کا سبب ہیں ۔نعوذ اللہ ٭ نومبر ۲۰۰۴ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں Submission نامی فلم میں اسلامی احکامات کا
[1] طلوع اسلام، جون ۱۹۵۶ء، ص۶