کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 109
٭ حضرت عیسیٰ کی توہین کا ایک کیس آسٹریا میں بھی ۱۹۹۰ء میں زیر سماعت لایا گیا ہے، جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ قانون دیگر مغربی ممالک میں بھی موجود ہے۔اس کیس ’اوٹو پریمنگر انسٹیٹیوٹ بنام آسٹریا‘ کے فیصلہ میں عدالت نے تحریر کیا کہ
’’دفعہ ۹ کے تحت مذہبی جذبات کے احترام کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے ، اس کے مطابق کسی بھی مذہب کی توہین پر مبنی اشتعال انگیز بیانات کو بدنیتی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جمہوری معاشرے کے اوصاف میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ اس نوعیت کے بیانات ، اقوال یا افعال کو تحمل ، بردباری اور برداشت کی روح کے منافی خیال کیا جائے اور دوسروں کے مذہبی عقائد کے احترام کو صد فی صد یقینی بنایا جائے۔‘‘
٭ ۱۹۸۹ء میں ایک فلم Visions of Ecstasy کو برطانوی سنسر بورڈ نے اس بنیاد پر نمائش سے روک دیا کیونکہ اس میں چرچ کی توہین پائی جاتی تھی۔ حالانکہ بعدازاں وہ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ اس میں توہین آمیز اور قابل اعتراض چیزیں کہاں پائی جاتی ہیں ؟
٭ اس واقعہ میں ’ہمہ قسم کے نسلی امتیاز (یا تعصبات) کے خاتمے پر عالمی کنونشن‘ ICERD کی بھی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔ جس کی رو سے نسلی برتری، نفرت انگیز تقاریر اور نسلی تعصب کو ابھارنے کے عمل کوغیر قانونی قراردیا گیا ہے۔ اور اقوام متحدہ پر لازم ہے کہ اس قسم کے قابل تعزیر اقدامات کے ذمہ داروں کو قرارِ واقعی سزا دے۔
ایسے معاشرے جہاں مذاہب کی بنیاد پر تفریق ممنوع ہے، وہاں اسلام کو نظر انداز کرکے دیگر مذاہب کو یہ تقدس عطا کرنا بذاتِ خود قابل مؤاخذہ اور مذہبی امتیاز کا مظہرہے۔ یہ مغرب کی اس منافقت کا پول کھولتا ہے جو آئے روز مذہبی مساوات کا دعویٰ کرتی اور مسلم ممالک کو ا س کا درس دیتی رہتی ہے۔بالخصوص اس وقت جب جمہوری اُصولوں کی دعویدار حکومتیں اس حقیقت کے علیٰ الرغم اس زیادتی کا ارتکاب کریں کہ یہ دنیا میں پائے جانے والے ڈیڑھ ارب یعنی دنیا بھر کی چوتھائی آبادی کے مذہبی جذبات کا تمسخر اُڑانا ہے۔
3. اسلام کی توہین؛ ایک جرمِمسلسل
توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کوئی وقتی مسئلہ نہیں کہ اس پر مسلمان اپنے غم وغصہ کا اظہار کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرالیں اور اسے ہی کافی سمجھیں ۔ بلکہ اگر صرف گذشتہ چند برس کی
[1] طلوع اسلام، ۱۹ فروری ۱۹۵۵ء، ص۱۸