کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 108
’’یورپ کی عیسائی اور نام نہاد سیکولر حکومتوں کا شروع سے یہ عجیب وغریب دوہرا معیار رہاہے کہ اپنے ملکوں میں تو توہین مسیح کے جرم کی سنگین سزا، سزاے موت نافذ رہی ہے جو اب بھی عمر قید کی صورت میں موجود ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان یا دوسرے مسلمان ملکوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی سزا کا سرے سے وجود ہی نہ رہے کیونکہ اس سے عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق مجروح ہوتے ہیں ۔‘‘
مغرب کی منافقانہ روش: ان خاکوں کی اشاعت کے لئے بہت سے اخبارات نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ سیکولر معاشرے کے نمائندہ ہونے کی وجہ سے وہ مذہبی نظریات کے تحفظ کے پابند نہیں ۔ دوسری طرف ان ممالک کے آئین اس امر کی ضمانت بھی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں بسنے والوں میں کسی مذہبی امتیاز کو جگہ نہیں دیں گے، لیکن ان ممالک کا عملی رویہ اس دعویٰ کے برعکس ہے۔ ان ممالک میں عیسائیت اور یہودیت کو جوتحفظ حاصل ہے اور قوانین میں ان کی جو ترجیحی حیثیت موجودہے، اسلام کو یہ تحفظ کسی مرحلہ میں بھی میسر نہیں ۔
٭ ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک میں یہودیوں کے جرمنی میں قتل عام کی خود ساختہ تاریخ اور ان کی مظلومیت کو پورا تحفظ دیا گیاہے۔ اس مزعومہ قتل ِعام(ہولوکاسٹ) میں مقتولین کی تعداد کو ۵۰ لاکھ سے کم بیان کرنا کسی کے مجرم بننے کے لئے کافی ہے۔حتیٰ کہ اس کہانی کے کسی جز کا بھی انکار کرنا ۲۰ سال تک قید کی سزا کا مستوجب ہے۔ ان ممالک کا یہ قانون مذہبی امتیاز پر واضح دلیل اور آزادیٔ اظہار پر صاف قدغن ہے۔ لیکن چونکہ اس سے یہودیوں کی دل شکنی ہوتی ہے، اس لئے اس کو تو قانونی تحفظ عطا کیا گیا ہے، لیکن مسلمانوں کی دنیا بھر میں او رخود ڈنمارک میں دل شکنی کوئی جرم نہیں۔ یہ تضاد مغربی لبرل ازم کا پورا پول کھولتا ہے…!
٭ برطانیہ میں حضرت عیسیٰ کی توہین پر موت کی سزا موجود ہے اور اس سزا کو عالمی عدالت ِانصاف بھی مختلف موقعوں پر تسلیم کرچکی ہے گویا وہ برطانیہ کے اس تصورِ قانون کی مؤید ہے جیساکہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی توہین کو آزادیٔ اظہار کے دائرے میں لانا کیوں برطانوی حکومت کو گوارا نہیں ۔ علاوہ ازیں برطانیہ کے اس قانون کا دائرہ صرف چرچ کے تحفظ تک ہی کیوں محدود ہے؟ یہ قوانین شہریوں میں عدم مساوات اور مذہبی امتیاز پر واضح دلیل ہیں ۔
[1] طلوع اسلام، ۱۲ فروری ۱۹۵۵ء، ص۳