کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 107
گناہ بدتر از گناہ‘ کا مصداق اور دیگر حکمرانوں کی ان سے ہم نوائی دراصل اسلام سے دشمنی کا برملا اظہار ہے۔ میڈیا کے بل بوتے پر اسلام کے بارے میں پیدا کیا جانے والا تعصب مختلف مراحل پر اپنا رنگ دکھا رہا ہے اور اس کو اپنے لبرل قوانین کا تحفظ پہنانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ یورپی یونین کی ہیومن رائٹس کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے سال ۱۹۹۶ء میں برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے توہین مسیح کے مقدمہ میں فیصلہ پر اوپر درج شدہ آرٹیکل ۱۰ کے تحت اپیل کی سماعت کے بعد ایک اہم اور دلچسپ مقدمہ ’ونگرو بنام مملکت ِبرطانیہ ‘میں بڑا معرکہ آرا فیصلہ صادر کیاہے جو یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک پر لاگو ہے۔ یہ کیس ایک ایسی فلم کے بارے میں تھا جس سے حضرت عیسیٰ کی توہین کا تاثر اُبھرتا ہے اور اس کو برطانوی سنسر بورڈ نے اس بنا پر نمائش سے روک دیا کہ اس سے عیسائی شہریوں کے جذبات مشتعل ہونے کا اندیشہ تھا۔ سنسربورڈ کے اس فیصلہ کے خلاف فلمساز نے برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت ’ہاؤس آف لارڈز‘ میں اپیل کی، جہاں اس عدالت ِعظمی کے ایک لبرل جج اسکارمین نے یہ قرار دیا کہ ’’توہین ِمسیح کا قانون برطانیہ کے لئے ناگزیر ہے۔‘‘ اس ہاؤس نے بھی فلم کو نمائش سے روکنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ فلمساز نے پھر اس فیصلہ کے خلاف حکومت برطانیہ کو فریق بناتے ہوئے حقوقِ انسانی کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس فیصلہ کو اوپر درج شدہ آرٹیکل ۱۰ کی رو سے چیلنج کردیا۔ یورپی یونین کی اس اعلیٰ ترین عدالت نے اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے یہ قرارد یا کہ ’’توہین ِمسیح کے قانون کی بدولت حقوقِ انسانی کا تحفظ برقرار رہتا ہے۔‘‘ اور سابقہ فیصلوں کو برقرار ررکھا۔ ٭ ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک مشہور کیس Faurisson VS Franceکا عدالتی فیصلہ ملاحظہ ہو: ’’ایسے بیانات پرجو یہودیت دشمن جذبات کو ابھاریں یا انہیں تقویت دیں ، پابندیوں کی اجازت ہوگی، تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔‘‘ روزنامہ نوائے وقت لاہور میں شائع ہونے والے مضمون ’یورپ اور توہین انبیا‘ میں مجاہد ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جناب محمد اسمٰعیل قریشی لکھتے ہیں :
[1] طلوع اسلام، مئی ۱۹۵۰ء، ص۲۹ [2] طلوع اسلام، مارچ ۱۹۵۲ء، ص۷ [3] طلوع اسلام، ۵ فروری ۱۹۵۵ء، ص۴