کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 106
دوسروں کی حدود میں دخل اندازی کی جائے۔ ایک انسان جب آزادیٔ اظہار کے ذریعے دوسروں کے مقدس تصورات و نظریات اور رہنما شخصیات پر تنقید کرے گا تو یہ آزادی کے بجائے کھلم کھلا جارحیت کا ارتکاب کہلائے گا۔ دوسرے کے جذبات سے کھیلنا آزادیٔ اظہار کے بجائے ’دہشت گردی کا ارتکاب‘ ہے۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں ، لیکن جہاں سے تمہاری ناک شروع ہوتی ہے ، میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ایسے ہی ’’ہر انسان کی آزادی وہاں جا کر ختم ہوجاتی ہے ، جہاں دوسرے کی شروع ہوتی ہے۔‘‘ اس لحاظ سے بھی ان اخبارات کا یہ رویہ آزادیٔ اظہار کے مغربی تصور کے استحصال اور کھلی مخالفت پر مبنی ہے۔آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر (مجریہ ۱۹۵۰، روم) اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتاہے۔ جس کی رو سے ’’ آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کرنا ہوگا، تاکہ یہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ ، امن وامان او ردیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں ۔ ‘‘ مزید برآں اسی چارٹر کے سیکشن ۱، آرٹیکل ۱۰ کی شق اول ودوم میں یہ بھی درج ہے کہ ’’ آزادیٔ اظہار کے حوالے سے ملکی قوانین پامال نہیں کئے جائیں گے، تاکہ جمہوری روایات علاقائی سلامتی، قومی مفادات، دوسروں کے حقوق کی پاسداری اور باہمی اعتماد کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘ ’’آزادی اظہار کا یہ تصور فرض شناسی اور ذمہ دارانہ رویے سے مشروط ہے۔‘‘ ’’آزادیٔ اظہار کا حق نہایت حزم واحتیاط او رذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے، اس کے ذریعے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک میں معاشرے کی اخلاقی اقدار، دوسروں کی عزتِ نفس، اور ان کے بنیادی حقوق کو گزندپہنچائے۔ ‘‘ ٭ آزادیٔ اظہار کا یہ حق ’انٹرنیشنل کنونشن آن سول اینڈ پولیٹکل رائٹس‘ ICCPRکے ذریعے بھی محدود کردیا گیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے حسب ِذیل مضمون دیکھیں : روزنامہ پاکستان، لاہور’نسلی ومذہبی منافرت اور عالمی قوانین‘ از آغا شاہی ٭ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مخالفت ان متعدد فیصلہ جات سے بھی ہوتی ہے جو ماضی میں مغرب کی مختلف عدالتیں سنا چکی ہیں ۔ اس کے باوجود ڈینش حکمرانوں کا یہ عذر ’عذرِ