کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 105
’’ہر وہ شخص جوملک میں قانونی طورپر مقیم کسی فرد یا کمیونٹی کے مذہب یا عبادات اور دیگر مقدس علامات کی تضحیک کرے گا، اسے زیادہ سے زیادہ چار ماہ کی قید یا جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی۔‘‘ غور طلب امر یہ ہے کہ جیلانڈ پوسٹن نامی اخبار اوراس کے ایڈیٹر کو اس قانون سے کیوں بالاتر رکھا جارہا ہے؟ جبکہ ڈنمارک کی سرکاری ویب سائٹ پر خود اس اخبار پر اس قانون کے تحت کاروائی کرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک کسی قانونی اقدام سے گریز کا رویہ زیر عمل ہے۔ ٭ ایسے ہی ڈنمارک ہی کے پینل کوڈ کے سیکشن ۲۶۶ بی کے مطابق ’’ ایسا کوئی بھی بیان یا سرگرمیاں جرم ہیں ، جو کسی بھی کمیونٹی کے افراد کے لئے رنگ ، نسل، قومیت، مذہب یا جنس کے حوالے سے دل آزار ہوں ۔‘‘ ڈنمارک کے یہ اخبارات وجرائد اس دفعہ کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں لیکن یہاں بھی قانون کو حرکت میں نہیں لایا جارہا۔ ٭ مزید برآں ڈنمارک کے آئین میں آزادیٔ اظہار کے حوالے سے سیکشن ۷۷ کی رو سے ’’ہر شخص کواپنے خیالات کے اظہار اور اُنہیں چھاپنے کی مکمل آزادی ہے لیکن وہ اپنے خیالات کے حوالے سے ’کورٹ آف جسٹس‘ کو ضرور جواب دہ ہے۔‘‘ اگر ان اخبارات کی اس حرکت کو آزادیٔ اظہار کے زمرے میں لانے کو بھی بفرضِ محال تسلیم کرلیاجائے تب بھی اس ’کورٹ آف جسٹس‘ نے دنیا بھر کے مظاہروں کے بعد ان اخبارات سے کسی جواب طلبی سے تاوقت کیوں گریز کیا ہے ؟ 3. ڈینش اخبارات وجرائد کے بعد جب یہ کارٹون مغربی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں تو اس امر کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کیا عالمی قوانین اور مغر ب کے مسلمہ تصورات مغربی میڈیا کو بھی انہیں شائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ؟ ٭ اس سلسلے میں میڈیا ہر جگہ آزادیٔ اظہار کے حق کا تذکرہ کر رہا ہے ، یوں بھی مغرب میں اس فلسفے کو بعض وجوہ سے ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ باوجود اس امر کہ اسلام آزادیٔ اظہار کے مغربی تصور کا قائل نہیں لیکن حالیہ خاکے مغرب کے اپنے پیش کردہ تصور پر بھی پورا نہیں اُترتے کیونکہ ہر انسان کو اس حد تک ہی آزادیٔ اظہار حاصل ہوتا ہے جب تک یہ اظہار دوسرے کی حدود میں داخل نہ ہوجائے۔ آزادیٔ اظہار کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ