کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 102
’’یہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کی شمع گل کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ نے اپنے نور کو تمام کرکے ہی رہنا ہے، چاہے کافر اسے لاکھ ناپسند کریں ۔‘‘ (الصف:۸) اللہ کے کامل واکمل دین کے ساتھ کفار کا یہ رویہ شدید ہٹ دھرمی اور بدترین تعصب کی نشاندہی کرتا ہے اور قرآنِ کریم کی زبانی اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت ِمطہرہ کا مذاق اُڑانے والوں پر لعنت کی اور اُنہیں عذابِ الیم کا وعدہ دیا ہے : ﴿ذٰلِکَ جَزَاؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْا آیٰتِيْ وَرُسُلِيْ ہُزُوًا﴾ ’’ان کی سزا جہنم اس لئے ہے کیونکہ اُنہوں نے اسلام سے کفر کیا اور اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اُڑایا۔‘‘ (الکہف: ۱۰۶) ﴿وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَأَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ ﴾ (الرعد: ۳۲) ’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اُڑایا جاتا رہا۔ تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میں نے ان کو اپنی گرفت میں لے لیا … پھر کیسا رہا میرا عذاب!!‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا کفار کی اس قبیح عادت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اُڑاتے ہیں (المائدۃ: ۵۷) پھر ان سے یہ سوال کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی تمہیں اس تمسخر کے لئے ملتے ہیں ، تم فکر نہ کرو، تمہارا انجام عنقریب اس ربّ کے ہاتھ میں جانے والا ہے۔ ( التوبہ: ۶۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مؤثر اندازِ دعوت ملاحظہ فرمائیں : ﴿یٰحَسْرَۃً عَلی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِئُ وْنَ﴾ ’’ان بندوں (کی نامرادی ) پر افسوس و حسرت! ان کے پاس جو رسول بھی آتا ہے ، تو یہ اس کا تمسخر اُڑانے سے نہیں چوکتے۔‘‘ (یٰسین:۳۰) الغرض اللہ کے دین کا تمسخر اُڑانا اور اس کی آیات سے ہنسی مذاق کرنا ایک مسلمان کو لمحہ بھر میں دائرۂ اسلام سے خارج کرکے مرتد بنادیتا ہے اور کفار کے لئییہ قبیح حرکت اللہ کو چیلنج کرنے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ ہیں بالاختصار وہ چار وجوہات جن کی وجہ سے مسلمان ان توہین آمیز خاکوں پر دنیا بھر میں اپنا ردّ عمل ظاہر کررہے ہیں ۔ اور یہ ردّ عمل اس ظلم وزیادتی کے بالمقابل بڑا ہی ادنیٰ گویا مجبور و مظلوم کی فریاد کے مصداق ہے۔ اسلام اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ توہین مسلمانوں کے