کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 9
کرتے تو اللہ تعالیٰ اس ساری قوم کو عقاب (سزا) میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘ ٭ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں زلزلہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو ٹھہر جانے کا حکم دیا اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ ربّ العالمین اس کے ذریعے برائیوں کے ترک کا مطالبہ کرتا ہے، اس کی طرف رجوع کرو۔ ٭ عہدِ فارقی میں زلزلہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمایا: یہ محض ان نئی چیزوں (بدعات و خرافات) کی وجہ سے ہے جن کو تم نے دین میں شامل کر دیا ہے۔ اگر ایسی باتیں ہوتی رہیں تو سکون ناممکن ہے۔ ٭ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین اس وقت ہلتی ہے جب معصیت کی کثرت ہو جاتی ہے، گناہوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور یہ زلزلہ ربّ العزت کا خوف ہے جس سے زمین کانپ اُٹھتی ہے۔ ٭ حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ بن عبد العزیز نے تمام اطراف کو لکھا کہ زلزلہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ بندوں کو عتاب فرماتا ہے، اور انہیں پابند کیا کہ سب لوگ شہر سے باہر نکل کر اللہ کے سامنے گڑ گڑاؤ اور جس کو اللہ نے مال عطا فرمایا ہے، وہ اپنے مال سے صدقہ خیرات کرے۔ مذکورہ بالا تمام واقعات کو علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الداء والدواء کے صفحہ ۶۴،۶۳ پر درج کیا ہے۔ (طبع دار یوسف، قاہرہ) ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ زلزلہ اور آفتوں کو بد اعمالی کا نتیجہ قرار دیا ہے: ’’جب مالِ غنیمت کو ذاتی مال سمجھا جانے لگے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ ادا کرنا جرمانہ اور چٹی بن جائے اور علم حاصل کرنے کا مقصد دین پر عمل کرنا نہ ہو (محض دنیا کمانا ہو)، اور آدمی ماں کی نافرمانی کرے اور بیوی کی بات مانے۔ باپ سے دوری اختیار کرے اور اس کے مقابلے میں دوست کی قربت چاہے۔ مسجدوں میں شور ہونے لگے، فاسق (اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان) شخص قبیلے کا سردار بن جائے، اور گھٹیا انسان قوم کا سربراہ ہو اور آدمی کی عزت اس کے شر سے بچنے کیلئے کی جانے لگے، آلاتِ موسیقی کثرت سے ظاہر ہو جائیں، شراب پی جانے لگے، اس اُمت کا آنے والا گروہ پہلوں پر لعنت و ملامت کرے۔۔۔۔ ((فلیر تقبوا عند ذلك ريحا حمراء وزلزلة وخسفا ومسخا وقذفا۔۔۔۔))