کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 80
فائدہ اُٹھانے آتے تھے، جہاں سے ابو السلام محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کو راز ہائے وراثت کے علمی خزانے وافر تعداد میں مل جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت مولانا محمد حسین شیخو پوری رحمۃ اللہ علیہ وہیں ملے۔ حافظ برادران کے ہمراہ سارے ملک کے گوشے گوشے میں چلتے پھرتے رہے، حتیٰ کہ ان کی آواز ملک سے باہر بھی کئی دفعہ روانہ سفر ہوئی اور کئی دفعہ واپس آئی، کیا مجال ہے کہ ان کے دماغ میں کوئی فخری فتور آیا ہو۔ ان کے لئے لندن اور کاہنیاوالہ برابر تھے، واشنگٹن اور کالو والی دونوں میں ان کا مزاج ایک ہی رہا۔
مجھے شفقت سے ملتے، ملاقات کے وقت چہک اُٹھتے اور اس کی مہک کافی دیر میری طبیعت میں رہتی۔ چونکہ وہ ہر سٹیج اور ہر طبقہ فکر کے علاوہ ہر موضوع پر نکتہ آفرینی کرتے تھے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی حیران رہ جاتے اور داد دیئے بغیر نہ رہ سکتے۔ میں نے خود بھی ان سے ایک موقع پر سٹیج پر کچھ بولنے کے لئے سبق لیا اور اُنہوں نے بڑی فراخ دِلی سے ذرہ نوازی ہی نہیں فرمائی بلکہ مجھے پوچھا کہ تم اُردو میں تقریر کیوں نہ کرتے، اس لئے کہ پنجابی میں تقریر کرنا ہر آدمی کے بس کا روگ نہیں، اس کے لئے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کی دین سے والہانہ محبت کا مجھے اس وقت بھی اندازہ ہوا، جب ان کا ایک پوتا جامعہ سلفیہ میں نظمیں سناتا اور کہتا تھا کہ کہو تو ساری رات لگا رہوں۔ پنجابی، اُردو ہو یا سرائیکی یا سندھی ہر زبان میں حمد الٰہی اور نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اشعار مجھے حفظ ہیں اور یہ سب کچھ میرے دادا نے مجھے سکھائے ہیں۔
تاریخِ وفات: ایسے لوگ ہزاروں سالوں تک بھی حیات رہیں تو کم ہے، کیونکہ وارثِ انبیاء جو ٹھہرے، لیکن اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے جس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے اور بروقت اپنے موعد پر پہنچنا ہے۔ وہ کئی حادثات کا شکار ہوئے، کئی بیماریوں نے اُنہیں اندر سے کھوکھلا کر رکھا تھا لیکن تبلیغی مشن کی کرامت کہ سننے والے کو خطاب میں فرق نہیں محسوس ہونے دیا۔ دیکھنے والے محسوس نہیں کر پاتے، لیکن دشمن تو ان کو اس وقت سے مار چکے تھے جب ان کی دونوں ٹانگیں حادثے کا شکار ہوئیں۔ لیکن اللہ کے بندوں کی دعائیں اور ان کا مشن تبلیغ دونوں کی برکت سے وہ اپنے ساتھیوں میں عمر کے اعتبار سے بھی نمبر لے گئے۔ إنا للَّہ وإنا إلیہ راجعون!