کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 8
مسلمانوں کو آنے والی آزمائشوں اور تکلیفوں کو عذاب قرار دیا جاتا رہا ہے، ایسے ہی بد اعمالیوں کے سبب آنے والی آفتوں کو بھی سزا قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ آخری، حتمی اور مکمل عذاب و عقاب آخرت میں ربّ العٰلمین کے دربار میں ہو ا۔ یوں بھی قرآن کریم کے احکام عام ہوتے ہیں اور ان میں ہمارے لئے نصیحت اور تذکیر کا زندہ جاوید پیغام موجود ہے، اس لئے سابقہ قوموں کے احوال سے صرف اسی بناء پر صرفِ نظر کر لینا مناسب نہیں، بلکہ ان سے بھی ہمیں عبرت پکڑنا چاہئے۔ خیر القرون میں بھی ایسے واقعات پیش آیا کرتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ان واقعات کو ’عذاب‘ قرار دے کر مسلمانوں کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کیا کرتے: ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک شخص نے زلزلہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فإذا استحلوا الزنا وشربوا الخمور بعد ھذا وضربوا المعازف غار اللّٰه في سمائه فقال للأرض تزلزلي بھم فإن تابوا ونزعوا وإلا ھدمھا عليهم فقال أنس: عقوبة لھم قالت رحمة وبركة وموعظه للمؤمنين ونكالا وسخطة وعذاباً للكافرين (مستدرک حاکم: ۸۵۷۵ صحیح علیٰ شرط مسلم) ’’لوگ جب زنا کاری کو مباح سمجھنے لگتے ہیں، شراب پینا دن رات کا مشغلہ بنا لیتے ہیں، اور ناچ گانے میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے اور وہ زمین سے فرماتا ہے: اِن پر زلزلہ لا (یعنی ان کو جھنجھوڑ دے)۔ اگر اس سے عبرت حاصل کی اور باز آگئے تو خیر ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر زمین کو (عذاب کی صورت میں) مسلط فرما دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا امّ المومنین! یہ زلزلہ سزا ہے؟ فرمایا: مؤمنوں کے لئے تو باعثِ رحمت اور نصیحت ہے البتہ نافرمانوں کے لئے سزا، عذاب اور غضب ہے۔‘‘ ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((ما من قوم يعمل فيھم بالمعاصي ھم أعز منھم وأمنع لا يغيرون إلا عمھم اللّٰه بعقاب)) (سنن ابن ماجہ: ۴۰۰۹، قالہ الالبانی: صحیح) ’’کوئی بھی قوم گناہوں میں مبتلا ہونے لگے اور قوم میں وہ لوگ باعزت اور اکثریت میں ہوں جن کو معصیت سے اجتناب ہے پھر بھی وہ معصیت سے نہیں روکتے اور اسے بند نہیں