کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 7
انجام سے عبرت پکڑنے والے ہو تاکہ تم پر بھی ویسا عذاب نہ آجائے جیسا ان پر نازل ہوا۔ پھر آپ نے اپنی اونٹنی کو ڈانٹا اور تیزی سے چلے حتیٰ کہ ان بستیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘‘
عبرت حاصل کرنے کے لئے ان بستیوں میں جانے کی ترغیب بہرحال قرآن کریم میں موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَسِيْرُوْا فِيْ الأرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ﴾ (النمل: ۶۹)
’’ذرا زمين ميں چل پھر كر ديكھو کہ مجرموں كا كيا انجام ہو چکا ہے؟‘‘
4. ایسے ہی اس نوعیت کا عذاب پانے والوں کے لئے مغفرت اور استغفار کا کوئی تصور موجود نہیں بلکہ یہ وہ کافر قومیں ہیں جن کی سرکشی اور نافرمانی نے ایسے ہولناک عذاب کا اُنہیں واقعتاً حق دار بنا دیا تھا، جیسا کہ قرآن میں ان کے عذاب کے بارے میں ہے:
﴿ فَمَا بكَتْ عَلَيْھِمُ السَّمَآءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوْا مُنْظَرِيْنَ﴾ (الدخان: ۲۹)
’’پھر نہ آسمان ان پر رویا، نہ زمین اور ان کو ذرا سی مہلت بھی نہ دی گئی۔‘‘
جبکہ موجودہ زلزلہ کا شکار ہونے والے لوگوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان کی نمازِ نازہ ادا کی جائے اور ان کے لئے اللہ سے بخشش و استغفار کیا جائے۔
٭ اس لئے اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ حالیہ زلزلہ سابقہ قوموں پر نازل ہونے والے عذاب جیسا عذاب نہیں۔ البتہ عذاب کے مراحل مختلف ہیں اور بڑے عذاب سے کمتر آفتوں کو بھی قرآنِ کریم نے ’عذاب‘ سے ہی تعبیر کیا ہے:
﴿ وَلَنُذِيْقَنَّھُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأَدْنٰي دُوْنَ الْعَذَابِ الأَكْبَرِ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ ﴾
’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں چھوٹے عذاب کا مزا اُنہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ (گناہوں سے) باز آجائیں۔‘‘ (السجدۃ:۲۱)
دراصل عربی زبان میں عذاب کا لفظ سابقہ قوموں یا کفار کے ساتھ خاص نہیں ہے، اور یہ سزا اور عتاب و عقاب ہر طرح کی اجتماعی و انفرادی تکلیف کے لئے بولا جاتا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((السفر قطعة من العذاب)) (بخاری: ۱۸۰۴)
’’سفر عذاب کا ہی ایک ٹکڑا ہے۔۔۔ الخ‘‘
اس لئے اس زلزلہ کو عذاب قرار دینے سے گریز کی شرعی طور پر کوئی ضرورت نہیں بلکہ