کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 6
ہلاک ہو جانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی تھی، اس لئے یہ بات تو ممکن نہیں کہ حالیہ زلزلہ کو ویسا عذاب قرار دیا جائے جو پہلی قوموں پر آیا۔ وہ عذاب کفار پر آیا کرتے تھے، جبکہ حالیہ عذاب یا سزا کا شکار ہونے والے مسلمان تو ہیں لیکن فاسق و گناہ گار ہیں۔ اسی بناء پر اقوامِ سابقہ پر آنے والے عذابوں کی بعض خصوصیات ایسی ہیں جو حالیہ زلزلہ سے مختلف ہیں، مثلاً 1. عذاب کا شکار ہونے والی پہلی قوموں کو مجموعی طور پر ہلاکت سے دوچار کر دیا جاتا تھا جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ ’’ظلم كرنے والوں كی جڑ ہی كاٹ كر ركھ دی گئی اور سب تعریفیں اللہ ربّ العالمین کے لئے ہیں۔‘‘ (الانعام: ۴۵) جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے مصداق پوری اُمتِ محمدیہ عذاب سے مکمل خاتمے کا شکار نہیں ہو سکتی۔ 2. اُس عذابِ الیم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نوعیت کے عذابوں میں نیکو کاروں کو علیحدہ کر دیا کرتے ہیں اور کفر و شرک کرنے والے ہی ان کا شکار بنت ہیں جیسا کہ حضرت نوح اور ان کی کشتی والوں کو، حضرت لوط اور حضرت صالح علیہم السلام وغیرہ کو اجتماعی عذاب سے نجات دلائی گئی تھی۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿ قَالَ إنَّ فِيْھَا لُوْطًا قَالُوْا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيْھَا لَنُنَجِّيَنَّه وَأَھْلَهُ إلَّا امْرَأَتَه﴾ ’’ابراہيم علیہ السلام نے کہا وہاں تو لوط علیہ السلام موجود ہے، اُنہوں نے کہا ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے؟ ہم اُنہیں اور بیوی کے سوا باقی سب گھر والوں کو بچا لیں گے۔‘‘ (العنکبوت: ۳۲) 3. عذاب والی ان قوموں کی تباہ شدہ بستیوں سے گزارا جائے تو استغفار پڑھتے ہوئے وہاں سے جلد سے جلد نکلنے کی تلقین آئی ہے: مررنا علي الحجر فقال لنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين حذرا أن يصيبكم مثل ما أصابھم)) ثم زجر فأسرع حتي خلَّفَھا۔ (صحيح مسلم: ۲۹۸۰) ’’ہمارا کھنڈرات (قومِ ثمود كی تباه شده بستی) پر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، ان کی بستیوں سے نہ گزرو، اِلا یہ کہ تم روتے ہوئے ان کے