کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 54
سی بھٹکتی ہوئی شخصیتوں کے لئے باعثِ ہدایت ثابت ہوا تھا (اور ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے پر زور استدلال کے اثر آفرینی سے اپنے قارئین کو بچائے رکھنے کی غرض سے طلوعِ اسلام اس دو طرقہ قلمی مراسلت کو اپنے صفحات میں شائع کرنے کی جرأت نہ کر سکا، حالانکہ اس سے قبل وہ (ڈاکٹر عبد الودود) وعدہ کر چکا تھا کہ اس پوری دو طرفہ خط و کتابت کو شائع کیا جائے گا۔ نیز اس کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ ’’جواب نہیں ملا‘‘ کی رٹ لانا جملہ منکرین حدیث کی عام روش ہے۔‘‘ [1] خدائے علیم و خبیر شاہد ہے کہ میرا اقتباس یہیں تک تھا، لیکن اس کے متصل بعد مدیر ’محدث‘ نے میرے علم و اطلاع کے بغیر، اپنی طرف سے مندرجہ ذیل پیرا گراف کا اضاجہ کر دیا: ’’جہاں تک ماہنامہ ’محدث‘ یا دیگر دینی جرائد کا تعلق ہے تو ان میں بھی حدیث کے وحی ہونے کے بارے میں بیسیوں مضمون شائع کئے جاتے رہے ہیں جس پر محدث کے فتنہ انکارِ حدیث میں اس موضوع پر شائع ہونے والے ۷۰۰ کے لگ بھگ مقالات کی فہرست شاہد ہے۔ بطورِ خاص اس عنوان پر کہ ’حدیث وحی ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔‘ محدث میں اکتوبر۱۹۹۵ء (ج ۲۷/عدد۱) میں دو طویل مقالات جناب غازی عزیر مبارک پوری کے قلم سے شائع ہو چکے ہیں۔‘‘[2] اس الحاقی پیرا گراف کا علم مجھے اس وقت ہوا جب کہ یہ پورا مقالہ محدث میں چھپ کر مجھے پہنچا، تب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ کاش! مدیر محدث نے یہ اقتباس بصورتِ حاشیہ اپنی طرف سے یا ادارۂ محدث کی طرف سے شائع کیا ہوتا (اور اسے میر عبارت میں ضم کر کے پیش نہ کیا ہوتا اور اس پر مولوی ازہر عباس کو موقع اعتراض نہ دیا ہوتا۔
[1] محدث، اگست، ص ۳۱ تا ۳۲ [2] محدث، اگست، ص ۳۲ [3] فاضل مقالہ نگار پروفیسر محمد دین قاسمی جیسا کہ گذشتہ صفحہ میں منکرین حدیث کے اس وصف کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ ایک بات کو متعدد بار ثابت کیا جائے، اس کے باوجود یہ حضرات معصوم بن کر یہ تقاضا پھر سے داغ دیتے ہیں کہ آج تک اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا گیا۔ حسن اتفاق سے اسی مضمون میں جناب خواجہ ازہر عباس نے نشاندہی کے باوجود اسی طرح کی صریح غلط بیانی کا ارتکاب پھر کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اس زیادتی کے بعد دشنام طرازی کا ایک سلسلہ بھی کھول دیا ہے۔ ہم بدکلامی کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے فرشتہ کے جواب والی سنتِ صدیقی رضی اللہ عنہ کو زندہ کرتے ہوئے اور ظلم کے خلاف آوازۂ احتجاج بلند کرنے کے حق کو استعمال کرنے سے بھی گریز کتے ہیں اور صرف بعض حقائق کے بیان تک محدود رہتے ہیں: خواجہ ازہر عباس کا یہ کہنا کہ فتنہ انکارِ حدیث نمبر میں شائع ہونے والی فہرست میں ایک مضمون بھی ’حدیث وحی ہے‘ کے موضوع پر موجود نہیں، صریح غلط بیانی اور علمی بد دیانتی ہے۔ جبکہ وہاں انکار حدیث کے ردّ میں مضامین کی طویل فہرست میں حدیث کے وحی ہونے کا ایک مستقل عنوان قائم کر کے اس کے تحت کئی مضامین کی فہرست شائع کی گئی ہے جن میں جید اہل علم اور شیوخ الحدیث کے مضامین بھی شامل ہیں، مثلاً ٭ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا مقالہ بعنوان ‘حدیث منزل من اللہ ہے!‘ ٭ مولانا محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کا مقالہ بعنوان ’اقسامِ وحی‘ ٭ مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کا مقالہ: ’وحی، نبوت، سنت اور حدیث‘ ٭ سابق مدیر ’محدث‘ مولانا اکرام اللہ ساجد کا ۴ قسطوں پر محیط طویل مقالہ ’حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی ہے!‘ ٭ غازی عزیر مبارکپوری کا مقالہ ’حدیثِ نبوی وحی اور اس کا منکر کافر ہے!‘ یہ فہرست فتنہ انکار حدیث نمبر میں اسی ’مطلوبہ‘ معنوان کے تحت شائع شدہ موجود ہے، دیکھیں صفحہ ۲۶۲ موصوف تنقید کرنے اور کئی صفحات سیاہ کرنے کے لئے تو آمادہ ہیں، اُنہیں معصومیت بھرا مطالبہ دہرانا تو یاد ہے لیکن ہمارے ذکر کردہ صفحات اور مضامین کی طرف رجوع کرنے کی معمولی زحمت اُنہیں گوارا نہیں۔ اس کے بعد ان کے یہ الزامات او اتہامات کس کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس کا فیصلہ قارئین خود ہی فرمائیں! راقم نے غازی عزیر صاحب کے تفصیلی مضمون کی طرف بھی پیرا گراف میں اشارہ کیا تھا، اس کے بارے میں خواجہ صاحب نے معذرت کی ہے کہ وہ ان کے علم میں نہیں، لیکن آپ پھر بھی اس کے مطالعہ کرنے کو آمادہ نہیں، نئے مضامین لکھنے کی معصومانہ طلب پر ہی قائم و ائم ہیں۔ جہاں تک مضمون میں اس پیرا گراف کے اضافے کا تعلق ہے تو چونکہ قاسمی صاحب کے سابقہ مضمون میں منکرین حدیث کے اس مطالبے کے جواب میں صرف مودودی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی کتاب کا تذکرہ کیا تھا۔ راقم نے معلومات میں اضافے کے لئے ان چند سطور کا اضافہ مناسب خیال کیا جس کا واحد مقصد قارئین محدث کی معلومات کی تکمیل اور فائدہ کا اِکمال تھا جو ظاہر ہے کہ ادارتی منصب کا ہی تقاضا ہے۔ (حسن مدنی)