کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 5
چکھائے ان کو ان کے بد اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں۔‘‘
﴿ وَمَا أَصَابكُمْ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كََبَتْ أَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ﴾
’’تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے، تمہار اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آتی ہے، البتہ بہت سے گناہگارں کو اللہ تعالیٰ نظر انداز کر دیتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: ۳۰)
﴿ وَمَا كُنَّا مُھْلِكِي الْقُرٰي إلَّا وَأَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ ﴾ (القصص: ۵۹)
’’اور ہم بتیوں کو ہلاک نہیں کرتے، الایہ کہ اس کے رہنے والے ظلم کا ارتکاب کریں۔‘‘
﴿ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَھُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْا أَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۴۰)
’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں، مگر لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔‘‘
قرآنِ کریم میں اس مفہوم کو بیان کرنے والی آیات بکثرت بیان ہوئی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے: سورۂ آلِ عمران: ۱۶۵، الانعام: ۴۹ اور ۶، ہود: ۱۱۷، الکہف: ۸۷ اور الزمر: ۵۱ وغیرہ
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ انسانوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ انسانوں کی بد اعمالیاں ہی اللہ کی پکڑ اور عذاب کو دعوت دیتی ہیں۔ اسی مفہوم کی بعض احادیث آگے آرہی ہے۔
زلزلہ: عذاب یا خود کار آفت؟
شمالی علاقہ جات کے اس ہولناک زلزلہ کے بعد ہمارے ہاں ایک بحث نے جنم لیا ہے کہ آیا یہ زلزلہ اللہ کا عذاب ہے، تنبیہ ہے یا ایک قدرتی آفت؟ تو واضح رہنا چاہئے کہ ایک عذاب تو وہ ہے جو سابقہ قوموں پر اللہ نے نازل کیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک اور یست و نابود ہو گئے، بعض لوگ اسے ’عذابِ استیصال‘ بھی کہتے ہیں جس کے بعد اس قوم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے تو ایسے عذابوں کا اب وقوع ممکن نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا موجود ہے اور اللہ عالیٰ نے اسے قبول فرمایا تھا۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إني سألتُ ربي لأمتي أن لا يُھلكھا بسنة عامة۔ وإن ربي قال: يا محمد! وإني أعطيت لأمتك أن لا أھلكھم بسنة عامة ))
(صحیح مسلم: ۲۸۸۹)
’’میں نے اپنے ربّ سے اپنی اُمت کے لئے دعا کی کہ اللہ ان کو عمومی عذاب سے دوچار نہ کرنا تو میرے ربّ نے میری اِس دُعا کو قبول فرما لیا۔‘‘ مختصراً
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جمیع اُمت کے ایک بڑے عذاب سے