کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 41
ایسے ختم کر دیئے گئے جیسے وہ وہاں کبھی آباد ہی نہیں رہے تھے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کمی بیشی کوئی معمولی نہیں بلکہ سنگین جرم ہے اور اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ پیداوار میں کمی کر کے مختلف عذابوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو لوگ ماپ تول میں کمی بیشی کریں گے: اللہ تعالیٰ ان کی پیدا وار کم کر دے گا اور ان پر قحط مسلط فرما دے گا۔‘‘ (ترغیب و ترہیب)
آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو بے شمار تاجر ایسے ملیں گے جو اس گھناؤنے جرم کو اپنی ذہنی ہوشیاری اور چالاکی سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم کے لئے دنیا میں عذاب اور آخرت میں عذابِ الیم کی وعید سنائی ہے:
﴿ وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ اَلَّذِيْنَ إذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ وَإذَا كَالُوْھُمْ أوْوَّزَنُوْھُمْ يُخْسِرُوْن﴾ (المطففین: ۱ تا ۳)
’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے جب لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو پورا پورا ليتے ہیں اور جب ناپ یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔‘‘
جب معاشرے میں لوگ اپنے مال و ولت سے صدقہ و خیرات عشر اور زکوٰۃ دینے سے پہلو تہی کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی پیداوار ختم کر کے اپنا عذاب ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ سورۂ قلم میں اللہ تعالیٰ نے باغ والوں کا حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ إنَّا بَلَوْنٰھُمْ كَمَا بَلَوْنَا أصْحٰبَ الْجَنَّةِ اإذْ أقْسَمُوْا لَيصرِ مُنَّھَا مُصْبِحِيْنَ وَلَا يَسْتَثْنُوْنَ فَطَافَ عَلَيْھَا طَائِفٌ مِّنْ رَبِّكَ وَھُمْ نَآئِمُوْنَ فَأصْبَحَتْ كَالصَّرِيْمِ﴾
(القلم: ۱۷ تا ۲۰)
’’ہم نے (مکہ کے کافروں) کو اس طرح آزمایا جیسے ایک باغ والوں کو آزمایا تھا جب وه باغ والے قسم اُٹھا بیٹھے کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے اور انہوں نے (غریبوں، مسکینوں کا) استثناء نہ کی تو وہ سو ہی رہے تھے کہ تیرے مالک کی طرف سے ایک پھیرا لگانے والی (بلا) باغ پر پھیرا کر گئی۔ پھر سارا باغ ایسا ہو گیا جیسے کوئی سارا پھل کاٹ کر لے گیا ہو۔‘‘
جب ان باغ والوں نے غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کو ان کا حق (عشر و زکوٰۃ وغیرہ) دینے کی بجائے اپنے باغ کا سارا پھل خود ہی سمیٹنے کا پروگرام بنایا اور رات کی تاریکی میں