کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 4
ہے، وہ تو مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستارے سے منکر ہے اور جس نے کہا کہ فلاں فلاں ستارے کی حرکت کی وجہ سے بارش ہوئی ہے تو ایسا شخص مجھ سے کفر کا مرتکب اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ایک مسلمان سے مطلوب رویہ کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کے حوالے سے دیکھتا اور اسی کے مطابق اپنے اعمال کا جائزہ لیتا ہے۔ پاکستان کے صدر جناب پرویز مشرف نے اس موقع پر جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس زلزلہ کا عذاب یا فتنہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک ایسا سائنسی عمل ہے، تو یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں تردید کی ہے۔ ایسی آزمائشوں کے موقع پر ایک مسلمان کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ خود اس آفت سے محفوظ رہتا ہے تو ملنے والے وقت کو اپنے لئے عمل کی مہلت سمجھتا ہے، اپنی کوتاہیوں پر نظر دوڑاتا اور استغفار بجا لاتا ہے۔ ان آسمانی آفات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں اپنے گناہوں کی فکر کرنا اور اللہ سے تقرب کے ذرائع اختیار کرنا چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان آفات کی وجہ ’لوگوں کی بداعمالیوں‘ کو قرار دیا ہے۔
قرآن کریم اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہمارے درمیان محفوظ حالت میں موجود ہے اور ہر قسم کے حالات میں ہمیں اس سے رہنمائی لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کا مقصد ہی یہ بیان کیا ہے کہ:
﴿ لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۰)
’’ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری ہی باتیں ہیں، تم اس سے عقل کیوں نہیں پکڑتے؟‘‘
آیات کا سبب گناہ اور بد اعمالیاں ہیں!
قرآنِ کریم کی درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
﴿ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَھُمْ بَأسَ الَّذِيْ َمِلُوْا لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾ (الروم: ۴۱)
’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا