کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 34
نہیں ہے، یہ تو میرے عقلی تجربوں اور عملی کاوشوں اور ہنر مندی کا نتیجہ ہے ﴿ إنَّمَا اُوْتِيْتُهُ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِي﴾ میں تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کر سکتا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام برابر اپنے فریضہ تبلیغ کو سر انجام دیتے رہے اور قارون کو راہِ ہدایت دکھاتے رہے۔ قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زِچ کرنے اور اپنی دولت و حشمت اور ظاہری چمک و دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر اور جاہ و جلال کے مظاہر سے مرعوب کرنے کے لئے ایک دن بڑے متکبرانہ انداز کے ساتھ نکلا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغامِ الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت کے ساتھ خاص شان و شوکت میں خزانوں کی نمائش کرتے ہوئے سامنے سے گزرا، اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک جتھا رکھتا ہوں اور زر و جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کو شکست دے کر رہوں گا۔ بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا و ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں مال کی طمع کی انسانی کمزوری جاگ اُٹھی اور وہ بے چین ہو کر یہ دُعا کرنے لگے: اے کاش! یہ دولت و ثروت ہم کو بھی حاصل ہوتی مگر بنی اسرائیل کے اربابِ حل و عقد نے فوراً مداخلت کی اور ان سے کہنے لگے کہ خبردار اس دنیوی زیب و زینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا، تم عنقریب دیکھو گے، اس مال و دولت کا انجام کیسا ہونے والا ہے؟ آخر کار جب قارون نے کبر و نخوت کے خوب مظاہرے کر لئے اور حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں حد درجہ زور صرف کر لیا تو اب غیرتِ حق تعالیٰ حرکت میں آئی اور پاداشِ عمل کے فطری قانون نے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کر دیا: ﴿ فَخَسَفْنَا بِه وَبِدَارِهِ الْاَرْضِ﴾ ’’ہم نے قارون اور اس کے سرمایہ کو زمین کے اندر دھنسا دیا۔‘‘ اور بنی اسرائیل کے سامنے اس کا غرور باقی رہا، نہ سامانِ غرور، سب کو زمین نے نگل کر سامانِ عبرت بنا دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس واقعہ کو سورۂ قصص میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ مال و دولت کے ملنے پر شکر کے بجائے اگر تکبر و غرور