کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 33
’’آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا پھل مارا گیا اور وہ اپنے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پا دیکھ کر اپنی لگائی ہوی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا: کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا‘‘ اور یہی روزِ بد فرعون کو دیکھنا بڑا کہ وقت گزرنے کے بعد اس نے کہا: اگر عذاب کے مشاہدے سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت مان لیتا تو اس درد ناک عذاب کی لپیٹ میں نہ آتا: ﴿ حَتّٰي إذَا أدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ أنَّهُ لَا اِلٰهَ إلَّا الَّذِيْ اٰمَنَتْ بِهِ بَنُوْ إسْرَائِيْلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ آلئنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلَ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ﴾ (يونس: ۹۰) ’’یہاں تک کہ جب وہ (فرعون) غرقاب ہونے لا تو اس نے کہا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ کوئی الٰہ نہیں، سوائے اس ذات کے جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، (اللہ کی طرف سے جواب آیا:) اور اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا۔‘‘ قارون کا قصہ کبر و نخوت: قارون کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کے خزانے وافر مقدار میں عطا فرمائے تھے، اس کے خزانوں کی چابیاں اُٹھانے کے لئے قوی ہیکل مزدوروں کی جماعت درکار تھی۔ اس تمول اور سرمایہ داری نے اس کو بے حد مغرور کر دیا تھا اور وہ دولت کے نشہ میں اس قدر چور تھا کہ اپنے عزیزوں، قرابت داروں اور قوم کے افراد کو حقیر و ذلیل سمجھتا اور ان کے ساتھ حقارت سے پیش آتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ ان کو نصیحت کی کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے تجھے بے شمار دولت و ثروت اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا اس کا شکر کر اور مالی حقوق زکوٰۃ و صدقات دے کر غربا، فقرا اور مساکین کی مدد کر۔ خدا کو بھول جانا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت نا شکری اور سر کشی ہے۔ اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور تکبر و غرور میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔‘‘ قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہا: موسیٰ یہ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا