کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 30
بِاللّٰهِ إنْ تَرَنِ أنَا مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا فَعَسٰي رَبِّيْ أنْ يُوْتِيَنِ خَيْرًا مِنْ جَنَّتِكَ وَيُرْسِلَ َلَيْھَا حُسْبَانًا مِنَ الَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيْدًا زَلَقًا اَوْ ُٰصْبحَ مَاؤُھَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ لَهُ طَلَبًا وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهِ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْه عَلٰي مَا اَنْفَقَ فِيْھَا وَھِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِھَا وَيَقُوْلَ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ أشْرِكْ بِرَبِّيْ أَحَدًا﴾
’’مثال بیان کرو ان كے لئے و آدمیوں کی: ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا فرمائے، ان کےارد گرد کھجور کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ پھلے پھولے اور پھل دینے میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اور اس سے خوب نفع حاصل ہوا۔
یہ سب کچ پا کر ایک دن وہ اپنے ساتھی سے کہنے لگا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری بھی رکھتا ہوں۔ پھر وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر مجھے کبھی اپنے ربّ کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اس سے زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔ اس کے ساتھی نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کیا تو اس ذات کے ساتھ شکر کی بجائے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا۔ میرا ربّ تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا: ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ! اگر تو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا ربّ تیرے باغ سے بہتر مجھے عطا فرما دے اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج کر اسے تباہ و برباد کر دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تو کسی طرح نہ نکال سکے۔
آخر کار یہ ہوا اس کا سارا پھل مارا گیا اور وہ اپنے انگور کے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔‘‘ (الکہف: ۳۲ تا ۴۲)
حضرت شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ’’آخر اس کے باغ کا وہی حال ہوا جو اس کے نیک بھائی کی زبان سے نکلا تھا کہ رات کو آگ لگ گئی، آسمان سے سب جل کر راکھ کا ڈھیر ہو گیا جو مال خرچ کیا تھا، دولت بڑھانے کو، وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔‘‘ (موضح القرآن)