کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 3
الشَّيْطَانُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام: ۴۳) ’’جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو کیوں نہ اُنہوں نے عاجزی اختیار کی؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، خوب ہے۔‘‘ ہمارے ذرائع ابلاغ کو دیکھیں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی آرا کا مطالعہ کریں تو کوئی زلزلہ کی وجوہات پر قیاس آرائی کر رہا ہے تو کوئی زلزلہ پروف عمارتوں پر دماغ سوزی کر رہا ہے۔ کسی کو حکومت کی کارکردگی کی فکر ہے تو کسی کو ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیلات سے مطلب ہے۔ اس پر مستزاد زلزلوں کے بارے میں سائنسی قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ ہے جو آئے روز اخبارات کی زینت بنا ہتا ہے۔ ایسی قدرتی آفات کے موقع پر ایک مسلمان کا ردّ عمل کیا ہونا چاہئے؟ سب سے پہلی جو بات ایک مسلمان کے ایمان و یقین کی بنیاد ہے، اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان تمام چیزوں کے پیچھے دراصل اللہ کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ کار فرما ہے۔ وہ انسان ظاہر بین ہے جو ان چیزوں کو اللہ کی قدرت و مشیت سے جوڑنے کی بجائے ظاہری اور مادّی اسباب پر منحصر قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان چشم کشا ہے: صلي لنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صلاة الصبح بالحديبية علي إثر سماء كانت من الليل فلما انصرف أقل علي الناس فقال: ((ھل تدرون ما ذا قال ربكم؟)) قالوا: اللّٰه ورسوله أعلم۔ قال: ((أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فأما من قال: مطرنا بفضل اللّٰه ورحمته فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب... وأما من قال بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب)) (صحيح بخاری: ۸۴۶) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ مقام پر فجر کی نماز پڑھائی جبکہ آسمان پر رات سے کچھ بادل موجود تھے۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: تمہیں علم ہے کہ تمہارے ربّ نے کیا کہا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: میرے بعض بندوں کی صبح ایمان کی حالت میں ہوئی اور بعض کی حالتِ کفر میں۔ جس کا یہ خیال ہے کہ ہم پر اللہ کی فضل و رحمت سے بارش ہوئی