کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 28
عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کرنا شروع کر دے تو ایسی قوم بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بن جاتی ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جب قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان کی تکذیب کر دی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر قحط مسلط کر دیا اور ان پر طوفان کا عذاب بھیج کر اُنہیں نیست و نابود کر دیا: ﴿ فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أوْدِيَتِھِمْ قَالُوا ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ ھُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِه رِيْحٌ فِيْھَا عَذَابٌ ألِيْمٌ تُدَمِّرُ كُلّ شَيئٍ بِأمْرِ رَبِّھَا فَأصْبَحُوْا لَا يُرَيٰ إلَّا مَسَاكِنُھُمْ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ﴾ (الاحقاف: ۲۴، ۲۵) ’’جب وہ دور سے بادل آتا دیکھتے تو کہتے کہ ہم بادل ہم پر بارش برسانے والا ہے۔ حالانکہ یہ بادل تو وہی چیز (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے۔ اس میں ایسی ہوا ہے جس میں بڑا دردناک عذاب ہے جو اپنے ربّ کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر رہی ہے اور وہ ایسے ختم کر دیئے گئے کہ ان کے مکانات کے علاوہ کوئی شے دکھائی نہیں دیتی، مجرموں کی قوم کو ہم ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ 5. زنا کاری اور فحاشی کا عام ہو جانا: جس معاشرے میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی بدکاری اور زنا کاری عام ہو جائے وہ معاشرہ بھی عذابِ الٰہی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم نے سورۂ یوسف میں اہل مصر کی اخلاقی بدحالی کا نقشہ پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ مصر کے عوام و عوام رہے، وہاں کے حکمرانوں کی بیگمات بھی زنا کاری کی دلدل میں بری طرح مبتلا تھیں اور بدکاری کی اس حد تک رسیا تھیں کہ اپنے ناپاک منصوبے میں ناکامی کی صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بے گناہ پابندِ سلاسل کرا دیا تھا۔ چنانچہ قرآن حکیم نے شہادت دی کہ اس زنا کاری اور فحاشی کی دلدل میں پھنسے ہوئے معاشرے پر اللہ تعالیٰ نے سات سال تک قحط مسلط کئے رکھا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: إذا ظھر فی قوم الزنا والربا فقد أحلوا بأنفسھم عتاب اللہ ’’جس قوم میں زنا کاری اور سود خوری عام ہو جائے وہ اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیتی ہے۔‘‘ (ترغیب و ترہیب) آج کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والے