کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 27
کمائی کا نذرانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے حضور بطورِ نیاز پیش کرتے ہیں۔ جس ملک کے عوام حکمرااور حکمرانوں کا یہ حال ہو تو پھر ان پر اللہ کی رحمتوں کی بجائے آسمان سے عذاب اور آفتیں نازل ہوتی ہیں۔ 3. اللہ کے دین سے رو گردانی: جو قوم اللہ کے نازل کردہ دین سے رو گردانی کو اپنا شیوہ بنا لے، اللہ ان کے مادّی وسائل کی کثرت و فراوانی کے باوجود ان کی گذران تنگ کر دیتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَمَنْ أعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَإنَّ لَهُ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ (طٰه: ۱۲۴) ’’جس نے میرے ذکر سے منہ موڑ لیا تو (دیا میں) اس کی معیشت تنگ کر دی جائے گی۔‘‘ آج اگر ہم اپنا اپنا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہر ایک پر واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے من حیث القوم زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے دین سے بغاوت کی روش اختیار کر کھی ہے۔ تہذیب و تمدن، معاشرت و معیشیت، سیاست و عبادت، الغرض زندگی کے تمام شعبوں میں ہم پر یہود و نصاریٰ اور ہندوانہ تہذیب کے اثرات کی چھاپ نظر آتی ہے۔ جبکہ اللہ کے نازل کردہ دین پر عمل پیرا ہونے سے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿ وَلَوْ أنَّھُمْ أقَامُوْ التَّوْرَاةَ وَالْاِنِجِيْلَ َمَا أُنْزِلَ إلَيْھِمْ مِنْ رَبِّھِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ إرْجُلِھِمْ﴾ (المائدۃ: ۶۶) ’’اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور جو کچھ ان کی جانب اللہ عالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچ سے روزیاں پاتے اور کھاتے۔‘‘ تفسیر ’احسن البیان‘ ميں ہے کہ اوپر كا ذِکر یا تو بطورِ مبالغہ ہے یعنی کثرت سے اور انواع و اقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسبِ ضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور خوب پیداوار دیتی، نتیجتاً شادابی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ 4. انبیائے کرایم کی تکذیب: جو قوم انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر