کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 26
کر دے تو وہ قوم صفحۂ ہستی سے جلد ہی مٹ جایا کرتی ہے: ﴿ وَکَایِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عََتْ عَنْ أمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِه فَحَاسَبْنٰھَا حِسَابًا شَدِيْدًا وَعَذَّبْنٰھَا عَذَابًا نُكْرًا فَذَاقَتْ وَبَالَ أمْرِھَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أمْرِھَا خُسْرًا أعَدَّ اللّٰهُ لَھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فَاتَّقُوْا اللّٰه يٰاُوْلِيْ الالْبَابِ﴾ (الطلاق: ۸ تا ۱۰) ’’اور کتنی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جنہوں نے اپنے ربّ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہم نے سختی سے ان کا حساب لیا اور ان کو بڑے عذاب (بیماری، قحط وغیرہ میں) پھنسا دیا، بالآخر انہوں نے اپنے برے اعمال کا وبال چکھ لیا اور ان کے برے کاموں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ ملیا میٹ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ عقل والو! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ۔‘‘ 2. شرک و بدعات: جو قوم خالق حقیقی اللہ ربّ العزت کو چھوڑ کر غیروں کی عبادت کرنے لگے اور مصائب و آلام کے رفع کے لئے غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھانے لگے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو بھی قحط سالی اور دیگر سنگین مصیبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ کفارِ قریش کے سامنے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی دعوت پیش کرتے ہوئے انہیں خدائے واحد کا پرستار بننے کی دعوت دی تو انہوں نے حد و عناد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ معبودوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قحط مسلط کر دیا اور وہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گئے حتیٰ کہ وہ آپس میں لڑ لڑ کر مرنے لگے۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ مردار چمڑے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سے ہر شخص کو مصیبت اور بھوک کی شدت کی وجہ سے زمین و آسمان کے درمیان دھواں نظر آنے لگا۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۵) آج ہمارے عوام اور حکمران دونوں طبقے شرک کی دلدل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ عوام رفع حاجات کے لئے قبرں میں دفن افراد کے مزاروں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں نذر و نیاز کے طور پر بکرے چھترے دے کر اپنے مال و دولت سے بھی لٹتے ہیں اور سب سے بڑی دولت ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور حکمران کرسیٔ اقتدار کو طول دینے کے لئے وائٹ ہاؤس کا طواف کرتے اور ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی کا طوفان برپا کر کے عوام کے خون پسینے کی