کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 25
سود جسے قرآن نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، اسے عام آدمی سے لے کر حکومت تک کوئی بھی چھوڑنے کو آمادہ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے دعوے ہیں کہ ہمیں خوشحالی اور ترقی اسی راستے پر چلنے سے ہی ملے گی۔ چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں جیسے جیسے ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں، بدتر سے بدترین بتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے مغربی اقوام کی طرزِ زندگی اپنانے کے چکر میں دکے کھا رہے ہیں۔ ہر آنے والی نئی حکومت اپنی طرف سے نئے نئے معاشی و اقتصادی پروگرام لے کر آتی ہے، لیکن حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ مرض بڑھا گیا جوں جں دوا کی، والی صورتحال ہے !!
یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے باوجود بھی ہم اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور بغاوت والی روش چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز زلزلہ اور مختلف آسمانی آفات کی زد میں ہے۔ لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اُتر گئے ہیں۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کا عذاب مختلف نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
﴿ فَكُلًا أخَذْنَا بِذَنْبِه فَمِنْھُمْ مَنْ أرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْھُمْ مَنْ أخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْھُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِه الارْضَ وَمِنْھُمْ مَنْ أغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَھُمْ وَلٰكِنْ كَانُوا أنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ﴾ (العنکبوت: ۴۰)
’’آخر کار ہر ايك كو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہو بھیجی (قومِ عاد) اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا (قومِ ثمود) اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا (قارون) اور کسی کو غرقِ آب کر دیا (فرعون، ہامان اور قومِ نوح) اللہ تو ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ ‘‘
اور دوسری جگہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ إنَّ اللہَ لا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ﴾ (النساء: ۴۱)
’’بے شک اللہ کسی پر ذرہ پھر بھی ظلم نہیں کرتا۔‘‘
جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر اُتر آئے اور سرکشی و بغاوت شروع