کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 24
سکتا ہوں: ﴿ وَمِنْ آيَاتِه أَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْأرْضُ بِأَمْرِه﴾ (الروم: ۲۵)
’’اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ زمین و آسمان اسی کے حکم سے قائم و دائم ہیں۔‘‘
آسمان کے ہلنے اور زمین کو غیر متوازن حرکت کرنے سے بھی اسی نے روک رکھا ہے:
﴿ وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَھُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِه﴾ (فاطر: ۴۱)
’’اگر زمین و آسمان حرکت کرنے لگیں تو اُنہیں اس (اللہ) کے سوا کوئی نہیں جو روک سكے۔‘‘
اب ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ان عوامل اور اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جو آسمانی آفات کے پیچھے کار فرما ہوتی ہوتے ہیں۔
1. برے اعمال اور ربّ کی نافرمانی: اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:
﴿ ظَھَرَ الْفَسَادُ في الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾ (الروم: ۴۱)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو بعض برے اعمال کی سزا انہیں دنیا میں چکھادے، شاید کہ لوگ برے اعمال سے باز آجائیں۔‘‘
﴿ وَمَا اصَابَكُمْ مِنْ مُصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ﴾
’’اور (لوگو) تم پر جو مصیبت آتی ہے تو تمہارے ہاتھوں نے جو کیا اس کی سزا میں اور (اللہ) بہت (سے قصور) معاف کر دیتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: ۳۰)
ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ بات سمجھا دی ہے کہ دنیا میں خشک سالی، قحط، سلاب، زلزلے، طوفان، اندرونی و بیرونی جھگڑے اور فسادات یا معاشی و اقتصادی اور اخلاقی بد حالی کی کوئی بھی شکل ہو، یہ سب انسان کے اپنے اعمال کا ہی نتیجہ ہے اور یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں انسان پر اس لئے آتی ہیں کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے اور انہیں اپنی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہوئے اپنے حالات میں تغیر پیدا کرے۔
آج اگر ہم اپنے حالات پر نظر ڈالیں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی برائی نہیں جسے ہم نے من حیث القوم سینے سے نہ لگایا ہو۔ شرک و بدعات، توہمات اور خرافات، بے حیائی، فحاشی اور عریانی، ذخیرہ اندوزی اور سود خوری، بددیانتی اور کرپشن، لوٹ کھسوٹ او قتل و غارت گری کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہم گم ہیں۔