کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 23
اور کیسے ممکن ہے؟ اس پر بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح آنے والے ان عذابوں کی توجیہ اور تاویل بھی خالصتاً مادّی ذہنیت سے کی جارہی ہے اور شاید کسی کا ذہن اس بات کی طرف نہیں جا رہا کہ اس ساری صورتِ حال کے پیچھے قدرت کا خفیہ ہاتھ کار فرما ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پکڑ کی وجوہات کیا ہیں؟ ہمارے سیاستدان اور حکمران یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں یا اپنے تئیں فرض ادا کر لیتے ہیں: جی بڑا نقصان ہو گیا، اتنے لوگ مر گئے، اتنے بے گر ہو گئے، ہمیں بڑا دُکھ ہے ہم مرنے والوں کی بخشش کی دعا کرتے ہیں اور لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ بس اللہ اللہ خیر سلا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ وزیر، مشیر اور سرکاری حکام اس حوالے سے ٹی وی، ریڈیو پر چند مذاکرے کروا کر اور عوامی فنڈ پہ اپنا نام لگا کر اور اخبارات میں اپنی تصویریں چھپوا کر زلزلہ زدان کی امداد کم اور تشہیر زیادہ کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑا سنہری کارنامہ سر انجام دے لیا ہے اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض ہے کہ ان مشکلات کے سد باب کے لئے ہم اپنے دین سے رہنمائی حاصل کریں۔ اسی غرض کے پیش نظر مندرجہ ذیل سطور میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس صورتِ حال کے اسباب اور وجوہات اور علاج کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصود ہے۔ وما توفیقی الا باللہ! اللہ کریم نے یہ زمین و آسمان، سورج، چاند، ستارے، درخت و دریا، سمندر و صحرا، پہاڑ اور غار، ہوائیں اور بادل، حیوانات اور نباتات۔ الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہے اور انسان کو اپنی بندگی کے لئے پیدا فرمایا ہے: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إلا لِيَعْبُدُوْنَ﴾ ’’میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔‘‘ یعنی انسان کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے، اسی کا ڈر اور خوف دل میں رکھنا چاہئے اور اسی کا حکم اور قانون ماننا چاہئے۔ لیکن جب یہ انسان اللہ کی عبادت سے اعراض کر کے غیروں کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور اس کی نافرمانی اور اس کے قانون سے بغاوت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ انہی چیزوں کو حرکت دے کر انسان کے ضمیر کو جھنجوڑتا کہ اے بندے! دیکھ اگر میں ان چیزوں میں تیرے لئے بے شمار فوائد و ثمرات رکھ سکتا ہوں تو تیری عبرت کے لئے انہیں تیری ہلاکت اور بربادی کا سبب بھی بنا