کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 21
الْقُرَي أَنْ يَاتِيَھُمْ بَأْسُنَا ضُحًي وَھُمْ يَلْعَبُوْنَ أَفَأَمِنُْا مَكْرَ اللّٰهِ فَلَا يَأمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ إلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُوْنَ (الاعراف: ۹۷ تا ۹۹)
’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات كے وقت نہ آجائے گی جب كہ وه سوئے پڑے ہوں؟ یا اُنہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے ا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اس سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔‘‘
الغرض یہ زلزلہ ہمارے لئے تازیانۂ عبرت اور قیامت کی یاد دہانی ہے جو ایک روز ایسے ہی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی، اور اللہ کی قوت و قدرت کی ایک علامت ہے جسے انسانوں نے دنیا کی چمک دمک میں بھلا رکھا ہے۔ ایسے قیامت کے لمحات میں جہاں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہئے، اگر مال سے ان کی مدد نہ ہو سکے تو عملاً ان کی مدد کے کاموں میں شرکت کرنا چاہئے، کم از کم ان کے لئے صبر اور استغفار کی دعا کرنا چاہئیں، یہ آفتیں اللہ کی طرف رجوع کا سبب بننا چاہئیں، اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈالنے کے رویہ کو بدلنے کے لئے ہمیں آمادہ اور تیار ہونا چاہئے۔ اگر یہ سبق بھی ہم نہیں لیتے و پھر اللہ کی پکڑ اور عذاب و عتاب اور فتنہ و آزمائش جس کا ہمارے بھائی شکار ہوئے، ہم سے بھی زیادہ ر نہیں اور کسی کو اللہ کی گرفت سے بچنے کی کوئی مجال نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ متواتر آنے والے یہ زلزلے ایک دن ہمارے لئے مہلت کے خاتمے اور قیامتِ صغریٰ کی نوید لے آئیں اور اس وقت بد اعمالیوں اور کوتاہیوں سے بھرے اعمال نامے کے سوا کچھ ہمار ہاتھ نہ ہو، قرآن کی دعوت یہ ہے:
﴿ وَأَنِيْبُوْا إلٰي رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوْا لَه مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأتِيكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ وَاتَّبِعُوْا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِّنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّاتِيْكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ أَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ يّحَسْرَتٰي عَلٰي ﴾(الزمر: ۵۴ تا ۵۸)
’’پلٹ آؤ اپنے ربّ کی طرف اور مطیع بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر کہیں سے تمہیں مدد نہ مل سكے۔ اور تمہارے ربّ نے تم پر جو بہترین (وحی) نازل کی ہے، اس کی پیروی کرو، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آپہنچے اور تمہیں اس کا خیال بھی نہ ہو۔ پھر کوئی نفس یہ کہے: ہائے حسرت! میں نے اللہ کی فرمانبرداری میں کوتاہی کیوں کی اور میں کیوں اس کا مذاق اُڑاا رہا؟ یا کوئی کہے: کاش میرا ربّ ہی مجھے ہدایت دے دیتا اور میں پرہیز گار بن جاتا۔ یا کہے کہ کاش مجھے اس عذاب سے بچنے کی کوئی مہلت ملتی تو میں کچھ نیکیاں ہی کما لیتا۔‘‘
(حافظ حسن مدنی)