کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 17
﴿ يٰاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ إنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ يَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ كُلُّ مُرْضِعَةً َمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَي النَّاسَ سُكَارٰي وَمَا ھُمْ بِسُكَارٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ﴾ (الحج: ۲،۱) ’’لوگو اپنے ربّ کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی۔ ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔‘‘ قرآن مجيد کی ایک سورة كا نام ہی سورة الزلزلۃ ہے، اس كی آیات ملاحظہ فرمائیں: ﴿ إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ زِلْزَالَھَا وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَھَا وَقَالَ الإنْسَانُ مَا لَھَا يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَھَا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحٰي لَھَا﴾ (۱ تا ۵) ’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نكال كر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے؟ اس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی، کیونکہ تیرے ربّ نے اسے (اس کا) حکم دیا ہو گا۔‘‘ ٭ لفظ الساعة (قیامت) کے مفہوم میں پوشیدہ معنویت میں بھی بڑا سبق ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السياسة الشرعية میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا ہے: ’’جب امانت ضائع کر دی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ امانت کے ضیاع سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب امر و حکومت نا اہلوں کے سپرد کر دی جائے تو تم قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (صحیح بخاری: ۵۹) اس حدیث میں وارد لفظ الساعة کی تشریح کرتے ہوئے امام راغب رحمۃ اللہ علیہ اصفہانی لکھتے ہیں: صغریٰ کسی شخص کی موت پر بولا جاتا ہے جیسے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: من مات فقد قامت قیامتہ (جو مر گیا، اس کی قیامت قائم ہو گئی)۔ ساعتِ وسطیٰ سے مراد قوم کی اجتماعی ہلاکت ہے۔ اور ساعتِ کبریٰ یوم الجز اور یوم الدین کو کہتے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں ساعت سے مراد ساعتِ وسطیٰ ہے۔ یعنی جب نا اہلوں کے ہاتھ میں امانت آجائے گویا قوم کی سرداری کی باگ دوڑ نا اہلوں کے ہاتھ چلی جائے تو قوم کی ہلاکت و بربادی کا انتظار کرو۔‘‘