کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 14
’’اگر الله لوگوں كو ان كے (تمام) گناہوں كے سبب پڑنا شروع كر دے تو روئے زمین پر کسی متنفس کو باقی نہ چھوڑے لیکن وہ ایک وقتِ مقرر تک مہلت دے دیتا ہے۔‘‘
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک سے بڑھ کر سرکشی اور نافرمانی کا ارتکاب مغربی ممالک میں زیادہ کیا جا رہا ہے، ان پر اللہ کی گرفت کیوں نہیں آتی؟ تو یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اللہ عالیٰ کا کسی قوم کو ڈھیل دینا اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ اللہ کے ہاں بڑے نیکو کار ہیں بلکہ ایک مسلمان کو تو اللہ تعالیٰ عذاب و عقاب کے ذریعے اپنی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے، اللہ کی یاد رکھنے والے مسلمانوں کے لئے آزمائشیں بعض اوقات بلندیٔ درجات کا سبب بھی بن جاتی ہیں جبکہ کفار کے لئے اللہ کی سنت بالکل مختلف ہے جس کا ذِکر قرآن کریم میں یوں آیا ہے:
﴿ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا أنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِھِمْ إنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْا إثْمًا وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّھِيْنٌ﴾ (آلِ عمران: ۱۷۸)
’’یہ ڈھیل جو ہم اُنہیں دیئے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ہم تو انہیں اس لئے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر ان کے لئے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔‘‘
٭ بعض لوگ اسے عذاب قرار دینے سے گریزاں ہیں اور اس کو ایک تنبیہ قرار دینے پر اکتفا کرتے ہیں لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ یہ تنبیہ تو ان کے لئے ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب میں مرنے سے بچا لیا لیکن وہ لوگ جو اس عذاب کا شکار ہو گئے، ان کے لئے تو تنبیہ کی بجائے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قیامت کا آغاز ہے۔ اور اچانک موت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگتے ہوئے اسے گدھے کی موت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی: ۹۸۰، مسند احمد: ۸۴۵۳، ۸۴۵۲) اور ایک دوسرے فرمان میں اسے مؤمن کے لئے راحت اور کافر کے لئے قابل افسوس گرفت قرار دیا گیا ہے۔ (مسند احمد: ۲۴۵۲۱)
اس لئے اس حد تک تو بات درست ہے کہ یہ زلزلہ باقی بچنے والوں کے لئے نیک اعمال کی مہلت، اللہ کا شکر اور استغفار بجا لانے کا موقعہ اور عبرت کا مقام ہے، لیکن جو لوگ اس آفت کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں، ان کے لئے یہ زلزلہ عمومی طور پر اللہ کی گرفت کی حیثیت رکھتا ہے۔