کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 13
کیف یُخسف بأولھم وآخرھم وفيھم أسواقھم ومن ليس منھم قال: ((ٰخسف بأولھم وآخرھم ثم يُبعثون علي نياتھم))
(صحیح بخاری: ۲۱۱۸)
’’اس لشكر كے پہلے اور آخری لوگوں كو كيونكر دھنسايا جائے گا، حالانكہ ان (اس سرزمین) میں بازار والے بھی ہوں گے اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ان (کے برے ارادے) میں شامل نہیں۔ تو نبی کریم نے جواب دیا کہ اس لشکر کو شروع سے آخر تک دھنسا دیا جائے گا، پھر روزِ قیامت انہیں اُن کی نیتوں پر اُٹھایا جائے گا (اور ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا)۔‘‘
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إذا أنزل اللّٰه بقوم عذابا أصاب العذاب من كان فيھم ثم بعثوا علي أعمالھم)) (صحیح بخاری: ۷۱۰۸، صحیح مسلم: ۲۸۷۹)
’’جب الله تعالیٰ كسی قوم پر عذاب نازل کرتے ہیں تو یہ عذاب قوم کے تمام افراد کو گھیر لیتا ہے، پھر (روزِ قیامت) اپنے اعمال کے مطابق انہیں اُٹھایا جائے گا۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ایک مقام پر سب کے اکٹھا موت پا جانے سے یہ لازمی نہیں آتا کہ سب موت پانے والوں کا انجام بھی اکٹھا ہو گا۔ بلکہ ہر ایک کو قیامت کے روز اس کے عمل اور نیت کے مطابق ثواب ملے گا۔‘‘
اسی معنی کی دیگر احادیث کے لئے دیکھئے: سنن ابو داؤد: ۴۲۸۹، صحیح بخاری: ۳۳۴۶ وغیرہ
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اجتماعی ہلاکت سے دوچار ہونے والوں میں نیک لوگوں کو آخرت میں ان کی نیکی کا بدلہ عطا فرمائے گا اور بالفرض اس آزمائش میں انہیں غیر معمولی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہو تو اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو بڑھانے پر بھی قادر ہے۔
٭ بعض لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ اگر گناہوں کو دیکھا جائے تو گناہوں میں ان سے زیادہ معصیت کار لوگ بھی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف انہی کو کیوں اپنی پکڑ میں لیا ہے تو اس کی توجیہ اللہ کی حکمتِ بالغہ اور اس کی تقدیر و مشیت کے سوا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلَي ظَھْرِھَا مِنْ دَابَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُھُمْ إلَي أَجَلٍ مُّسَمًّي﴾(النحل: ۶۱)