کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 12
کریم میں بطورِ خاص صراحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اجتماعی عذاب سے امر بالمعروف کی ذمہ داری پورا کرنے والوں کو نجات دیا کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
﴿ أَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْھَوْنَ عَنِ الْسُّوْءِ َاَّخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بِئِيْسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۶۵)
’’ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘
البتہ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو اپنی سی کوشش میں لگتے رہتے ہیں، گو کہ ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔ سابقہ اقوام میں تو اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ ان کو عذاب کے وقت قوم سے جدا کر لیا جاتا جیسا کہ نوح اور لوط علیہم السلام وغیرہ کے بارے میں گزر چکا ہے۔ موجودہ زلزلہ میں بھی ایسے بعض شواہد ملے ہیں جن میں بعض نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حیران کن طریقے سے اس سے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن دنیا پورے پورے بدلہ کا مقام نہیں ہے، اس لئے اور آزمائش کے عنصر کو برقرار رکھنے کے لئے بعض اوقات نیکو کار بھی عذاب کی زد میں آجاتے ہیں اور ان کے لئے نبی کا یہ فرمان خوشخبری اور اطمینان کا باعث ہے:
((إذا ظھر السوء في الأرض أنزل اللّٰه بأسمه بأھل الأرض وإن كان فيھم قوم صالحون يصيبھم ما أصاب الناس ثم يرجعون إلي رحمة اللّٰه ومغفرته)) (الجامع الصغیر: ۶۹۳، شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
’’جب کسی قوم میں کھلم کھلا برائی کا ارتکاب ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ اہل زمین پر اپنا عذاب نازل کرتے ہیں چاہے ان میں نیک لوگ بھی موجود ہوں اور ان نیکو کاروں کو بھی دوسرے لوگوں کی طرح اسی عذاب کا سامنا ہوتا ہے، البتہ (بعد میں) وہ اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں۔‘‘
٭ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور فرمان سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک لشکر کعبہ کی طرف پیش قدمی کرے گا، جب وہ (مکہ، مدینہ کے درمیان) بَیداء مقام پر پہنچے گا تو شروع سے آخر تک تمام لشکر زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ حدیث کی راویہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا: