کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 11
اجتماعی نظام معطل ہے اور اس کا احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس اجتماعی تعطل میں اسلام کا عدالتی، سیاسی، معاشی، تعلیمی اور معاشرتی تمام نظام شامل ہیں۔ اس اعتبار سے نیک لوگ بھی اجتماعی کوتاہیوں کے لئے مناسب جدوجہد نہ کرنے کی بنا پر اللہ کے عتاب کے حقدار بن جاتے ہیں۔ اس لئے یہ مسلمانانِ پاکستان کے لئے ایک تازیانہ ہے جو اللہ کے وعدے کو نظر انداز کرنے اور اس کے لئے مناسب جدوجہد میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے برسا ہے۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی بد اعمالیاں اور معاشرتی طور پر روا رکھی جانے والی کوتاہیاں ایک مستقل موضوع ہے، جو صاحبانِ نظر سے کسی طرح پوشیدہ نہیں ہے۔ اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود انفرادی اور اجتماعی طور پر زندگی کے ہر میدان میں ہمارا رویہ شرمناک حد تک غلط ہے۔ اور برائی کی یہ روایت معاشرے کے نچلے طبقے سے اوپر ہر مرحلے تک بدستور پھیلی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں اللہ کا عذاب یا فتنہ صرف ظلم کرنے والوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس بارے میں توجہ نہ کرنے والوں کو بھی گھیرے میں لے لیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ایسی ہی صورتحال پر بطورِ خاصل ڈرایا گیا ہے:
﴿ وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاْعلَمُوْا أنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (الانفال: ۲۵)
’’اور ڈرو اس فتنے سے جس كی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی خصوصیت: سابقہ قوموں کے بارے میں بھی قرآن کریم نے یہ تذکرہ کیا ہے کہ بنی اسرائیل کو حضرت داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی اس بات پر لعنت کی گئی کہ وہ نیک اعمال کو بجا لانے کے لئے اور لوگوں کو برائیوں سے روکنے کے لئے اپنی ذمہ داری انجام نہیں دیتے تھے۔
(المائدہ: ۷۸)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام نہ دینے والوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کئی وعیدیں اور عذاب کی دھمکی موجود ہے، مثلاً دیکھیں جامع ترمذی: ۲۱۶۹، عقیدہ طحاویہ: ص ۵۶۹
اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اور اس بات کی قرآن