کتاب: محدث شمارہ 294 - صفحہ 10
تو ايسی صورتحال ميں تم انتظار كرو سرخ آندھيوں كا، زلزلوں كا، زمين كے دھنسنے كا، صورتوں کے بگڑ جانے کا، آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کا۔ اور یہ نشانیاں اس طرح ظاہر ہونے لگیں گی جیسے اگر پرانی تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے موتی مسلسل گرنے لگتے ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی: ۲۲۱۱) اِس حدیث میں ذِکر کردہ تمام نشانیاں کم و بیش ہماری قوم میں پائی جاتی ہیں اور زلزلہ کا مشاہدہ کرنے والوں کا بیان ہے کہ وہاں زلزلہ کے علاوہ زمین کا پھٹنا (خسف)، چٹانوں اور پتھروں کا پہاڑوں سے گرنا (قذف) بھی عمل میں آیا ہے۔ اس لئے اس سانحہ کو عذاب قرار دیا جائے یا عتاب و عقاب، یہ بہرحال برے اعمال کا نتیجہ اور اللہ کی ناراضگی کا مظہر ہے اور دوسروں کو اس سے اپنے برے اعمال پر عبرت پکڑنا چاہئے۔ بالخصوص جب اس زلزلہ کے بعد شدید طوفان باوباراں اور سخت سردی کی آزمائش بھی ان پر مسلط کی گئی ہے۔ بعض لوگ اس محض تنبیہ قرار دے رہے ہیں جبکہ تنبیہ تو عافیت میں رہنے والوں کے لئے ہے، اس کا شکار ہونے والوں کے لئے تنبیہ اس لئے نہیں کہ تنبیہ یا وارننگ سے فائدہ اُٹھانے کی مہلت ہی اُنہیں حاصل نہیں رہی۔ اس لئے اس کی گرفت میں آنے والوں کے لئے ہمارا عام عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتے، یہ برے اعمال کی ایک اجتماعی سزا ہے۔!! بعض شبہات و اعتراضات: اس موقع پر بعض سوالات بھی اُٹھائے جاتے ہیں، مثلاً ٭ اِس عذاب کا شکار ہونے والے تمام لوگ تو گناہ گار نہیں تھے، پھر وہ سب اس عذاب کی گرفت میں کیوں آگئے؟ شخصی برائیوں سے قطع نظر کرتے ہوئے واضح رہنا چاہئے کہ نیکی اور بدی کا تصور صرف ذاتی نیک اعمال تک محودنہیں بلکہ اسلام ہر مسلمان کو ذاتی نیکی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر نیکی کی ترغیب، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم بھی دیتا ہے۔ اگرچہ بعض لوگ گناہوں میں خود شرکت نہیں کرتے یا نیکی پر اکیلے عمل پیرا ہوتے ہیں لیکن عام طور پر اجتماعی یا معاشرتی میدان میں وہ اپنی ذمہ داریاں پری نہیں کرتے۔ مملکتِ خداداد میں اس وقت عملاً اسلام کا