کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 9
طبقے پر تنقید کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی لوگ تھے جنہوں نے سامراج کے خلاف قوم کو خوابِ غفلت سے جگایا اور اُنہیں متحد کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراج ان کے خلف پوری قوت سے نبرد آزما ہو گیا اور اس نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، ان کے خلاف تمام تر سیاسی ہتھکنڈے استعمال کئے اور اُنہیں ایسی جان لیوا سزائیں دیں، جن سے تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی آگاہ ہے۔ استعمار کے پروردہ ذرائع الاغ نے ان کے مثبت کردار کو مسلم قوم کے سامنے پیش کرنے کے بجائے ان کے برے تشخص کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ جو رویہ آج عالمی ذرائع ابلاغ کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہے کہ وہ اُنہیں دہشت گرد قرار دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ایسے ہی دورِ سامراج کے بعد سے علمائے کرام کی کردار کشی کی مہم بھی جاری و ساری ہے۔ نامور مسلم رہنما شاہ فیصل کے بقول استعمار کی مثال چیچک کے مرض کی سی ہے جس کا اگر علاج بھی ہو جائے تو مرتے دم تک انسان کے چہرے سے اس کے داغ نہیں جاتے۔ استعمار کے زیر نگرانی بظاہر ترقی کی منازل طے کرنے والے یہ اسلامی معاشرے قرآن و سنت میں اپنی اساسات سے بے تعلق کر دیئے گئے ہیں۔ ان کی مثال اس فرد کی سی ہے جس کا نام تو محمد، ابوبکر یا عمر ہے لیکن وہ اسلام کے بنیادی تقاضوں سے بھی بے خبر ہے اور اس اسلامی احکامات پر عمل در آمد کا موقعہ سال میں کہیں ایک دو بار ملتا ہے۔ فرد کی سطح پر اسلام سے بے اعتنائی کا جو رویہ پایا جاا ہے، معاشرتی اور اجتماعی سطح پر اس رویے میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے!! دینی مدارس کا اساسی مقصد قرآن و سنت کی تعلیم دینا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ’’تم میں سب سے بہترین آدمی وہ ہے جو قرآن سیکھتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔‘‘ اس کے مصداق دینی مدارس کے طلبہ اور فضلا ہی ٹھہرتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں اپنے معاشرتی رجحانات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایسا مبارک علم حاصل کرنے والوں سے ہمارا معاشرہ کما حقہ استفادہ نہیں کر رہا۔ کیا اس کی وجہ خود ہمارے اپنے اندر تو موجود نہیں؟ جہاں تک دینی مدارس کے طلبہ کی علمی لیاقت اور قابلیت کا تعلق ہے تو اس کو ثابت کرنے کے لئے اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے اسلامیات و عربی کے