کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 8
تعلیم کو کلی طور پر عوامی صوابدید اور ان کے جذبہ خیر کی تسکین پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دینی اداروں سے حکومتِ پاکستان کا کردار برصغیر میں برطانوی سامراج کی حکومت سے زیادہ مختلف نہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد دینی تعلیم کے بارے میں بھی مستقل پالیسی بنائی جاتی اور اس کو بھی قومی ذمہ داری تصور کیا جاتا۔ کم از کم اوقاف ہی ان کے حوالے کئے جاتے جنہیں سامراج نے ریاستی جبر کے ذریعے مدارس سے چھین لیا تھا لیکن عین سیکولر نظریات کے مطابق دینی تعلیم کو معاشرے کی اجتماعی ضرورت سے نکال باہر کر کے، مذہب کی طرح، دینی تعلیم کو بھی عوام کا ذاتی مسئلہ باور کیا گیا۔ گذشتہ چند صدیوں میں ریاست کا ادارہ کہیں زیادہ مستحکم ہو چکا ہے اور اس کے دائرہ کار میں معاشرے کی چھوٹی چھوٹی جزئیات آچکی ہیں۔ ریاست کا یہ ادارہ عوام کی پائی پائی پر نظر رکھتا ہے، ٹیکسوں کے نفاذ، براہِ راست یا بالواسطہ کٹوتیں سے ملک کے ہر شہری سے ریاست اپنا خراج حاصل کرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک نظریاتی ریاست کا اپنے نظریات کی تعلیم دینے کی ذمہ داری نہ اُٹھانا اور اس کے لئے ماحول پیدا نہ کرنا بلکہ اس کے حاملین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا ’اسلامیت‘ کا کونسا اُسلوب ہے؟ اس بنا پر ہماری نظر میں اصل مسئلہ یہ نہیں کہ دینی تعلیم کے ادارے مزید دینی تعلیم کیوں دیئے جا رہے ہیں، بلکہ اگر یہ ملک اور معاشرہ اسلامی ہے اور یہاں کے باشندے اسلام سے گہری وابستگی رکھتے ہیں تو حکمرانوں کو اس ذمہ داری کو سمجھنا اور اس کے حقیقی تقاضوں کے مطابق ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنا چاہئے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ سامراجی دور میں جس طرح دینی تعلیم کو علم کے میدان میں بے وقعت باور کیا جاتا تھا، عین اسی طرح آج بھی دینی علوم کے فاضلین کو عوامی نمائندگی کے لئے تعلیم کے مروّجہ تصور کی بناء پر ہی نا اہل قرار دیا جا رہا ہے۔ حکومت تو اپنے تعلیمی تصورات کی اصلاح نہیں کرتی، اُلٹا جو لوگ مخیر مسلمانوں کے صدقات و زکوٰۃ کی مدد سے اپنے تئیں اس بھاری ذمہ داری کو ادا کر رہے ہیں، ان کو موردِ الزام اور دہشت گرد ٹھہراتی ہے! دین کا تحفظ کرنے، اس سے گہری وابستگی رکھنے اور اس کے لئے قربانیاں دینے والے