کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 7
کی نماز کے امام کا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جب خلیفہ بنایا گیا تو ان کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا مشہور مقولہ موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہماری نماز کا امام بنایا، ہم اس کو اپنی دنیا کا بھی امام بناتے ہیں۔ (سنن نسائی:۷۷۷) لیکن استعمار نے ان دونوں معزز ترین مناصب ’قاضی‘ اور ’مولوی‘ کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ قاضی کا کام صرف نکاح پڑھانا رہ گیا اور ’مولوی‘ کے لفظ کو تو گویا ایک الزام بنا کر رکھ دیا۔!! جہاں تک دینی مدارس کے فضلاء کو ملازمت ملنے کا تعلق ہے تو واضح رہنا چاہئے کہ ملازمت کا تعلق ضرورت سے ہوتا ہے۔ جب ایک چیز کی معاشرے میں ضرورت اور ڈیمانڈ ہو تو اس کے ماہرین کو اچھے مشاہروں پر ملازمت ملتی ہے۔ جب مجموعی طور پر معاشرے میں دین کی ضرورت ہی مسلمہ نہ ہو تو اس کی تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کو کیا ملازمتیں مل سکتی ہیں؟ ذرا غور کریں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے ہمارے معاشرے میں کونسی آسامیاں موجود ہیں؟ اور حکومتی سرپرستی میں کہاں کہاں دینی ماہرین کی ضرورت پیش آتی ( ہے ؟ پاکستان جیسے نظریاتی ملک کی حکومت نے اسلامیانِ پاکستان پر یہ احسان تو کیا ہے کہ آمدن والے دینی شعبوں کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور وزارتِ اوقاف، زکوٰۃ و شر کے حکومتی شعبے و قائم ہیں لیکن کیا ملک بھر میں ان مالی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کے زیر نگرانی کوئی اسلامی ادارے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر مساجد تعمیر ہوں تو مسلمانوں کے اپنے جذبہ انفاق فی سبیل اللہ کے تحت، مدارس ہوں یا دینی علیم اور حفظ و تجوید وغیرہ کے ادارے و مسلمانوں کی اپنی مدد آپ کے تحت۔ یاد رہے کہ دینی مدارس کو زکٰوۃ کی مد سے ملنے والا معمولی حصہ بھی ۱۹۹۴ء میں بے نظیر حکومت کے دور سے بند کیا جا چکا ہے۔ حکومتِ پاکستان کے تحت ملازمین کی تعداد کے اعتبار سے تعلیم کا شعبہ دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ جس کے لئے کئی وزارتیں، ادارے، ٹیکسٹ بک بورڈ، امتحانی مراکز اور کمیشنز کام کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف دینی
[1] البتہ مدارس کے ان فضلا کے لیے عربی و اسلامیات کی تدریس کے مواقع موجود ہیں لیکن اس میں بھی کئی ایسے تکنیکی طریقے بروئے کار لائے جاتے ہیں جس کے بعد .... باوجود برتر اہلیت کے .... عملاً فضلائے مدارس محروم ہی رہتے ہیں ۔