کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 6
میں جدید علوم، سائنس و ٹیکنالوجی اور افکار و نظریات کا ایک وافر حصہ موجود ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان برطانوی نو آبادیاتی رہا ہے۔ اس لئے پاکستان میں فرانسیسی بولنے اور لکھنے والے باوجود اہلیت کے، کوئی نمایاں قومی کردار ادا نہیں کر سکتے جبکہ صرف انگریزی زبان کی اچھی صلاحیت ہی پاکستان میں بیشتر ملازمتوں کی ضمانت عطا کر دیتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ فرانسیسی قدیم یا ناکارہ زبان ہے، درست نہیں بلکہ اس سے ہمارے معاشرتی رجحانات او سرکاری اقدامات کی عکاسی ہوتی ہے۔
ہمارے اسلامی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں دینی مدارس کے فضلا کو ہی نہیں، قرآن کریم اور فرامین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قومی منظر نامے میں کوئی اہم حیثیت حاصل نہیں ہے۔ وحی الٰہی سے جذباتی وابستگی کے علاوہ کونسا ایسا کام ہے جس میں ان کی رہنمائی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’قرآن کی فریاد‘ جیسی نظمیں لکھی جاتی ہیں کہ یہاں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کا مصرف صرف قسموں کے لئے کام آنا اور گھروں میں بلند طاقوں میں رکھ کر تبرک حاصل کرنا رہ گیا ہے، حالانکہ قرآن کریم کے بارے میں نبی آکر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
((إن اللّٰه یرفع بھٰذا الکتاب أقوامًا ویضع بہ آخرین)) (مسلم: ۸۱۷)
’’اللہ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو سربلندی عطا فرماتے اور ترک کرنے والوں کو گہرائیوں میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘
اگر یہی اعتراض قرآن کریم کے بارے میں کیا جائے کہ انفرادی تعلق اور مساجد و مدارس سے قطع نظر پاکستانی معاشرے میں قرآن کا کیا کردار ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں ہی ہو گا۔ اس کا نتیجہ کیا معاذ اللہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن میں ہی وہ قوت نہیں کہ کوئی اہم کردار ادا کر سکے!!
اگر پاکستانی معاشرہ میں ان اسلامی احکامات کا بول بولا ہو جن کا آغاز میں اسلامی معاشرے کی نقشہ کشی میں تذکرہ کیا گیا ہے، ہماری معاشرت اور زندگی کے ہر ہر میدان میں اسلام رچا بسا ہو تو کیا وجہ ہے کہ ہر میدان میں دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کی ضرورت پیش نہ آئے۔ استعمار کے تسلط سے قبل انہی دینی مدارس کے فیض یافتگاں قاضی (جج) کے منصب پر فائر ہوتے۔ اسلامی ریاست میں قاضی کا منصب سب سے زیادہ عزت والا ہے یا مسلمانوں