کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 5
سیکولرازم نے گوارا کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اخلاق، نظریے، عبادت اور شخصی مسائل؛ نکاح و طلاق وغیرہ میں مذہب کو اختیار کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت کے مقاصد میں و اسلام کی تعلیم کے علاوہ مساجد و مدارس کی کفالت اور ان کا انتظام و انصرام بھی شامل ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی ’اسلامی‘ حکومت نے دینی تعلیم کو کبھی اپنی ذمہ داری ہی خیال نہیں کیا، سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی اسلام کی تعلیم برائے نام ہی ہے۔ ایسے ہی اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں دعوے اور جذبے کی حد تک ہی اسلام کا نام پایا جاتا ہے، عملی حوالے سے یا حکومتی سرپرستی میں یہاں دیگر معاشروں سے زیادہ اسلام نہیں ملا۔!!
بعض کوششیں البتہ ایسی ضرور ہیں جو عام حکومتوں سے قدرے ممتاز ہیں، مثلاً وفاقی شرعی عدالت، حدود آرڈیننس، بیت المال یا بنکوں میں زکوٰۃ کی کٹوتی وغیرہ لیکن یہ کوششیں ابھی تک معاشرے کے سیکولر رنگ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ جن دنوں اسلام پسند حکومتیں آتی ہیں، وہ مزید ایسے چند اقدامات کر جاتی ہیں اور جب سیکولر حکومتوں کا سکہ چلتا ہے تو وہ اپنی من مانی کرنے اور معاشرے کو مغربی ڈگر پر چلانے کی قانون سازی کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ گویا یہ ایک جنگ ہے جو قیامِ پاکستان سے جاری ہے۔ بظاہر سیکولر ذہن حاوی ہے جس نے اسلامی اقدامات کو بڑی ذہانت کے ساتھ قید بندیوں میں جکڑ رکھا ہے!
اس ساری تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دینی تعلیم کے لئے کام کرنے والے اداروں او ان کے فضلاء کو اس لئے معاشروں کے عام دائروں میں قبولیت نہیں ملتی کیونکہ ہمارے ہاں دین کو بھی سیکولر معاشرے کی طرح پورے معاشرے کی بجائے صرف ایک کونے میں ہی محدود کر دیا گیا ہے۔ جب قرآن و سنت کا ہی معاشرے میں چلن نہیں تو ان کے تعلیم یافتہ حضرات معاشرے میں کیا اثر اور وزن رکھ سکتے ہیں؟
مسئلہ دینی مدارس کے فضلا کی اہلیت اور دینی تعلیم کی افادیت و اہمیت کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں قبولِ عام کا ہے۔ تعلیمی ادارے معاشرے میں پائے جانے والے رجحانات کے لئے افرادِ کار تیار کرتے ہیں لیکن معاشرتی رجحانات کا رخ سیدھا کرنا حکومت کی ذمہ داری اور اسی کا دائرہ اختیار ہے۔ پاکستان میں جن دنوں اسلام پسند حکومتیں بر سر اقتدار ہوتی ہیں، ان