کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 44
رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اپنے دامن میں لئے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مشن کے دشوار گزار مگر انتہائی پُر سعادت سفر پر روانہ ہونے والے تھے۔ ان میں سے ایک طالب علم حافظ نذر اللہ نے صیح بخاری کی آخری حدیث، نائب شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مکمل سند کے ساتھ پڑھی۔ عربی لہجہ کے حسن اور رقت و سوز میں رندھی ہوئی ان کی آواز نے سامعین پر رقت و کیف طاری کر دیا تھا۔ اس کے بعد مولانا ارشاد الحق اثری کے درس کا آغاز ہوا:
اُنہوں نے صحٰح بخاری اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے امتیازات بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اس وقت روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ’صحیح بخاری‘ ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کا جو نام رکھا اور اس میں صحت کے التزام میں جو اُصول و ضوابط ملحوظ رکھے، وہ ندرت و انفرادیت کا ایسا شاہکار ہے کہ اس سے قبل اور اس کے بعد آج تک اس کا مثیل پیش نہیں کیا جا سکا۔ صحیح بخاری سے پہلے الموطا اور اس کے بعد صحیح مسلم، صحیح ابن حبان اور صیح ابن خزیمہ وغیرہ میں کوئی بھی صحیح بخاری کے ہم پلہ نہیں۔ اُنہوں نے ہی اس غیر معمولی احتیاط کی بنیاد رکھی اور پھر خود ہی اسے اس طرح بامِ عروج تک پہنچایا کہ كم ترك الأولون للآخرين کا مقولہ غلط ثابت ہو گیا اور جو بھی اعتراضات صحیح بخاری پر ہوئے، تاریخ نے اُنہیں غلط ثابت کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ امام بخاری کا ایک ایک حدیث کو نقل کرنے سے پہلے غسل کرنا، اطمینانِ قلب کے لئے نمازِ استخارہ، بیت اللہ میں کتاب کی تدوین اور رياض الجنة مدینہ منورہ میں ابواب بندی، ان کے شدعتِ اہتمام اور ذہنی نکتہ رسی کی ایک بے نظیر مثال ہے۔
اُنہوں نے ایک اہم نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کا ایک حدیث کے بارے میں صرف رجاله رجال الصحيح کہہ دینے سے وہ حدیث صحیح قرار نہیں پا سکتی کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثقاہتِ راوی کے ساتھ ساتھ اتصالِ، سند، علت و شذوذ اور دیگر شرائط کا التزام بھی کیا ہے۔ اُنہوں نے کبار محدثین علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور قتیبہ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے حوالہ سے امام بخاری کی عظمت کا ذِکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی یہ عظمت ان کی کتاب کی عظمت ہی کا ایک پہلو ہے۔
بعد ازاں اُنہوں نے صحیح بخاری کا آغاز كتاب بدء الوحي اور حدیث: ((إنما