کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 41
اُنہوں نے دینی مدارس اور سعودی جامعات کے ان فضلا کے متعلق گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جو دنیا کی حرص اور بڑی تنخواہوں کے لالچ میں اپنے مشن کو فراموش کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے دادا اپنی اولاد کو اور ہمارے والد اپنی اولاد کو وہی وصیت کیا کرتے تھے جو ابراہیم اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو کی تھی کہ ﴿ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ﴾ اُنہوں نے کہا کہ اس اُمت کا فتنہ مال ہے۔ نہایت عظیم لوگ بڑے بڑے فتنوں سے نکل گئے لیکن مال کے فتنہ سے نہ بچ سکے۔ اُنہوں نے اپنے سگے چچا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’حکومت اور علمائے ربانی‘ کے حوالہ سے عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسماعیل بن علیہ رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ذِکر کیا کہ ان دونوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ ایک دین کا کام کرے گا اور دوسرا تجارت کرے گا اور منافع دونوں کے درمیان تقسیم ہو گا۔ چنانچہ جب عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنے سفر تجارت سے واپس آئے تو پتہ چلا کہ ابن علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے جج کا منصب قبول کر لیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ابن علیہ کو ان کا حصہ نہ دیا جب ابن علیہ چند دن انتظار کرنے کے بعد خود لینے کے لئے گئے تو عبد اللہ بن مبارک نے ایک شعر پڑھا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’علم کا گدھا کیچڑ میں پھسل گیا۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ علماء کی اولادوں کو تباہ کرنے میں مالِ زکوٰۃ کا بھی ایک کردار ہے۔ صرف بقدرِ ضرورت لینا ہی جائز ہے، وگرنہ اولاد کی تباہی اور مشن سے دوری کا خطرہ ہے۔ ٭ آخر میں جامعہ کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ اُنہوں نے قرآن و سنت کی رو سے علم دین کی اہمیت و فضیلت کا ذِکر کرتے ہوئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول پیش کیا جس میں حصولِ علم کے آداب و شرائط کا ذِکر کیا گیا ہے: أخي لن تنال العلم إلا بستة سأنبئك عن تفصيلھا ببيان زكاء وحرص واجتھاد و بلغة وإرشاد أستاد وطول زمان اُنہوں نے کہا کہ ايك طالبِ علم كو حصولِ علم ميں بڑے چھوٹے كا فرق روا نهيں ركھنا چاہئے۔ عالم المدینہ امام مالک ایک دفعہ سترہ سے ہٹ کر نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی عام آدمی نے کہا: أدن إلي السترة أيھا المصلي’’نماز پڑھنے والے! سترہ کے قریب ہو جا۔‘‘ تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آگے بڑھے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہوئے اس کا شکر ادا کیا:﴿ وعلمك: