کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 40
القلبی کا ثبوت دیتے ہوئے لاکھوں عیوب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور اگر اسے زمین پر پٹخ دو پھر ایک ٹکڑا اُٹھا کر دیکھو تو بھی خیر خواہی سے باز نہیں آتا، یہی مثال ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے ہر مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرتے ہوئے اس کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور اگر ایک عیب ہے تو زیادہ کر کے نہیں بتاتا اور اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے، خواہ اس میں ہزاروں عیوب ہوں اور اگر مسلمان بھائی اس پر ظلم کرے تو اس پر صبر کرتا ہے اور اس کے ساتھ پھر بھی احسان کا رویہ رکھتا ہے۔ ٭ اس کے بعد مولانا عتیق اللہ قطب کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ موصوف جامعہ میں ۱۹۷۷ء میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور ان دنوں جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے زیر نگرانی مدرسہ جھوک دادو میں شیخ الحدیث ہیں۔ اُنہوں نے جامعہ رحمانیہ اور ماہنامہ ’محدث‘ کو دہلی کے جامعہ رحمانیہ اور ’محدث‘ کی یادگار اور نشاۃِ ثانیہ قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی ادارہ کی کامیابی ہمیشہ اخلاص اور با اعتماد لوگوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ٭ بعد ازاں مدیر الجامعہ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے فرمانِ الٰہی: ﴿ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُھْلِكَ الْقُرَيٰ بِظُلْمٍ وَأَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ﴾(ہود: ۱۱۷) سے اپنے خطاب کا آغاز کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ اور قانون بیان کیا کہ جب تک کسی قوم میں معاشرہ کی اصلاح کرنے والے باقی ہوتے ہیں، اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس قوم کو تباہ نہیں کرتا۔ لہٰذا معاشرہ کی روحانی بیماریوں کو سمجھتے ہوئے اصلاحِِ اُمت کا بیڑا اُٹھانا وقت کا شدید تقاضا ہے، لیکن آج ہم دنیا کی حرص اور مال کے لالچ جو بقول رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت کا سب سے بڑا فتنہ ہے، میں پڑ کر اپنے اس مشن سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دنیا داری اور للّٰہیت کی کشمکش کا شکار ہیں۔ دین کے طلباء آغاز میں پرخلوص ہوتے ہیں لیکن جب دنیا کی چمک دیکھتے ہیں تو اپنا مشن بھول جاتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فکرِ معاش میں پھنس کر اپنی مادرِ علمی اور دین سے بھی بیگانہ ہو جاتے ہیں اور یہ ایک ایسی المناک صورتِ حال ہے جس کا تصور وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی خود داری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک ایک پیسے کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دین کے طلبا پر خرچ کرتا ہے۔