کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 4
دنوں دینی تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی اور ان کو معاشرے میں اہم کردار سونپا جاتا ہے اور جن دنوں لا دین رجحانات کی سرپرستی کی جاتی ہے، ان دنوں یہ لوگ بھی قرآن و حدیث کی طرح معاشرتی منظر نامے سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف دینی مدارس کے فضلا کا نہیں بلکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے فضلاء کا بھی ہے کہ اس کے دینی تعلیم یافتہ طلبہ کو اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں اور ان کی صلاحیت سے فائدہ بھی نہیں اُٹھایا جاتا۔ ایسے ہی پاکستان کی سرکاری یونیورسٹیوں میں شعبۂ اسلامیات کے فضلاء بھی تعلیمی میدان کے علاوہ اور کسی قومی خدمت میں کھپ نہیں سکتے، یہی وجہ ہے کہ اب سرکاری شعبہ ہائے اسلامیات میں طالبات کی اکثریت ہی تعلیم حاصل کرتی ہے اور وہ لوگ جو اچھا روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان شعبوں کی طرف رخ ہی نہیں کرتے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کے دینی اداروں سے سندِ فضیلت حاصل کرنے والوں کا نہیں بلکہ سعودی عرب کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی پاکستان میں عام قومی دھارے میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے جبکہ پاکستان کے دینی مدارس کے فضلاء عرب ممالک میں اہم ذمہ داریوں پر کام کرتے اور خوب کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بالخصوص سعودی معاشر میں اسلام کے معاشرتی تصورات کی عمل داری اور تکمیل کے لئے ایسے فضلاء کی ہر موڑ پر ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ لوگ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں بھی لوگوں کے فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کرتے ہیں۔ دینی مدارس کے معاشرے میں غیر مؤثر ہونے کی وجوہات اور بھی بہت سی ہیں جن میں وسائل کی کم یابی، ذہین طبقہ کی علومِ دینیہ سے عدم دلچسپی، حکومتی سرپرستی کی غیر موجودگی، تعلیم و تعلم کے جدید اسالیب کا عدمِ استعمال وغیرہ شامل ہیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر جو چیز آڑے آتی ہے، وہ معاشرے میں دین کے غیر ضروری ہونے کا احساس، دینی تعلیم کی اہمیت سے ناواقفیت اور مجموعی طور پر معاشرے کا سیکولر رنگ میں رنگے جانا ہے! تعلیم کی اہمیت و افادیت کا معاشرتی رجحانات سے کیا تعلق ہے؟ اس کے لئے دورِ جدید کی دو زبانوں کی مثال سامنے رکھئے۔ فرانسیسی اور انگریزی دونوں جدید زبانیں ہیں اور دونوں