کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 39
سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں فاضلین جامعہ کو خطاب کی دعوت دی گئی اور اس کے بعد حافظ ثناء اللہ مدنی اور مدیر الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی کے خطابات تھے۔ ٭ قاری عبد الرؤف عادل (مدرس جامعہ) کی تلاوتِ قرآن سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ٭ اس کے بعد فاضل جامعہ ہذا قاری محمد حسین (مدرس جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاپ) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے باہم رابطہ کو اتفاق و اتحاد کے لئے نہایت اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ باہمی رابطہ اور اتفاق و اتحاد سے ہی مدارسِ دینیہ عالمی سازشوں سے آگاہی اور اس کے مقابلے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ اُنہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کو حاصل کر کے زندگی کے مختلف شعبوں میں حصہ لینے پر زور دیا۔ ٭ اس کے بعد فاضل جامعہ ہذا قاری محمد اجمل نے اس مجلس کے قیام پر جامعہ کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے راہِ دعوت کے درمیان حائل رکاوٹوں کے ازالہ کے لئے جامعہ اور اساتذہ سے رابطہ کو نہایت اہم اور ضروری قرار دیا۔ ٭ جامعہ کے فاضل اور مدرس مرزا عمران حیدر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسلام نے سلسلہ انسانی میں خون کی حیثیت کو تسلیم کیا ہے لیکن مسلمانوں کے درمیان اُخوت کا اصل معیار دین اور تقویٰ ہے۔ ہمارا اصل رشتہ دین کا رشتہ ہے، اس رشتہ کے حاملین گویا ایک قبیلہ، ایک قوم اور ایک ملت ہیں۔ اس تعلق اور رشتہ کو مضبوط کرنے کی جو ضرورت اس وقت ہے وہ شاید کبھی نہیں تھی کہ دنیا اس تعلق کو ختم کرنے پر اکٹھی ہو رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں اس درسگاہ کی مناسبت سے کسی مرکزی نسبت کو اختیار کرنا چاہئے۔ ٭ جامعہ کے فاضل اور ادارۃ الاصلاح (بونگہ بلوچاں) کے نائب مدیر قاری صہیب میر محمدی نے تمام اداروں اور مدارس کا مقصد اصلاحِ اُمت قرار دیتے ہوئے، اصلاحِ اُمت کے لئے خلوصِ نیت، ہر مسلمان کی خیر خواہی اور خود اپنے نفس کے محاسبہ کو ضروری قرار دیا۔ اُنہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : ((المؤمن مرأۃ المؤمن)) کے تحت جذبہ خیر خواہی کو اصلاحِ اُمت کے لئے ایک اہم عامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایک آئینہ ہر حال میں دیکھنے والے کو اس کا چہرہ دِکھاتا ہے اور ہر ایک کو دکھاتا ہے، پھر جس قدر عیب ہوں اسی قدر دکھاتا ہے، کمی بیشی نہیں کرتا، پھر ایک کا داغ دھبہ اور عیب دوسرے کو نہیں دکھاتا، پھر وسیع