کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 38
اِس ادارے کی بناء سے آج تک اس ادارے میں روحِ رواں کی حیثیت رکھتی ہے، آپ کے ساتھ حافظ ثناء اللہ مدنی کی علمی سرپرستی بھی اس ادارے کو حاصل رہی ہے۔ مدیر الجامعہ کے معاونین کی حیثیت سے شیخ الحدیث مولانا صادق خلیل رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۷۹ء تک، پھر قاری تعیم الحق نعیم رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۸۴ء تک، پھر مولانا خالد سیف ۱۹۸۹ء تک براہِ راست ناظم طلبہ اور امورِ دفتر کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ہیں۔ بعد ازاں مولانا شفیق مدنی ۲۰۰۳ء تک اور ان کی معیت میں ۱۹۹۱ء میں قائم ہونے والا كلية القرآن میں محمد ابراہیم میر محمدی نے ۲۰۰۴ء تک اساسی خدمات انجام دی ہیں۔ اس کے بعد سے جامعہ کی مرکزی انتظامی کمیٹی جو مولانا رمضان سلفی اور مولانا زید احمد کی نگرانی میں ہفتہ وار منعقد ہوتی ہے، مدرسہ کے انتظام و انصرام میں مصروف و مشغول ہے۔
جامعہ کے اس طویل سفر میں ان حضرات کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
٭ اس کے بعد كلية الشريعة کے پرنسپل مولانا رمضان سلفی کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی۔ موصوف مولانا محمد گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ۱۹۸۰ء میں پڑھنے کے لئے آئے لیکن پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہی تدریس کا مقع بھی حاصل رہا۔ یہاں سے کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض میں داخلہ ہو گیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد سے جامع لاہور الاسلامیہ میں نائب شیخ الحدیث کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ دین کی سمجھ بوجھ ہم پر اللہ کا احسانِ عظیم ہے۔ انہوں نے جامعہ کے قیام اور اس کو پروان چڑھانے میں مدنی صاحب کی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جامعہ کی موجودہ رونق اور ترقی کو ان کی محنت کا ثمر قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ دار العلوم دیو بند اور جامعہ رحمانیہ، دہلی کے فاضلین اپنے ادارہ کے نمائندہ ہوتے تھے، لہٰذا اس جامعہ کے فاضلین کا بھی فرض ہے کہ وہ ادارہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، اپنی مادرِ علمی کے وقار اور کام کو بڑھانے میں اس کا ساتھ دیں۔
اس کے ساتھ ہی پہلی نشست کا اختتام ہوا۔ نمازِ ظہر ادا کرنے کے بعد فاضلین جامعہ اور دیگر مہمانان گرامی کے لئے مجلس الحقیق الاسلامی کی عمارت میں پُرتکلف کھانے کا انتظام تھا۔
کھانے کے بعد ’دینی سرگرمیوں کے فروغ میں باہمی رابطے کی اہمیت‘ کے موضوع پر ایک