کتاب: ماہنامہ شمارہ 293 - صفحہ 36
3. اور آخر لاکھوں انسانوں ک سامنے ھل بلّغت کا اعلان کیا تو سب نے تصدیق کی۔ اُنہوں نے زور دیا کہ ایک داعی اور عالم دین کو ان کرداروں کا اعلیٰ نمونہ ہونا چاہئے کہ موت کے وقت صدا آے: ﴿ يٰاَيَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّهُ ارْجِعِيْ إلٰي رَبِّكَ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً﴾ ٭ اس كے بعد مولانا محمد شفيق مدنی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ موصوف نے جامعہ ہذا سے ۱۹۸۳ء میں سندِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے كلية الشريعة کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد اسی جامعہ کی نظامت کی ذمہ داری ان کندھوں پر ڈالی گئی جسے اُنہوں نے جس حسن و خوبی سے نبھایا، جامعہ کے فاضلین اس کے گواہ ہیں۔ کچھ عرصہ آپ جامعہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی معروف ادارے إدارۃ المساجد والمشاریع الخیرية میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اُنہوں نے اس طرح کی مشاورتی مجالس کو دینی سرگرمیوں کے فروغ میں نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ جب آدمی دوسروں کی تنقیص کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو پھر ساری صلاحیتیں اپنے دفاع میں ضائع ہو جاتی ہیں اور کوئی تعمیری کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اُنہوں نے کہا کہ نظریات کا اختلاف ایک طبعی امر ہے، لیکن اختلاف کی بنیاد پر باہم تعصب اور شدت کا رویہ انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ٭ اس کے بعد مولانا فاروق اصغر صارم کو دعوتِ ارشاد دی گئی۔ موصوف ۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۱ء جامعہ میں پڑھاتے رہے۔ اس وقت یہ ادارہ ہنجر وال روڈ پر واقع تھا۔ تصیف کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ وراثت کے موضوع پر عربی زبان میں فقه المواريث کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جو اس وقت ۲۰ مدارس میں بطورِ نصاب پڑھائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ’اسلامی اوزان‘ وغیرہ کتب ان کے ذوق تحقیق کی آئینہ دار ہیں۔ اُنہوں نے جامعہ کی پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا دور انتہائی کٹھن دور تھا اور الحمد للہ یہ ننھا سا پودا اب ایک تناور اور ثمر آور درخت بن چکا ہے۔ اُنہوں نے لائبریری میں جامعہ کے اساتذہ اور فاضلین کی کتب کے لئے ایک شو کیس قائم کرنے کی تجویز دی جس سے نہ صرف جامعہ کے فاضلین اور زیر تعلیم طلبہ میں تحقیق و تصنیف کا ذوق و شوق بیدار ہو گا بلکہ بہت ساری کتب بھی جامعہ کی لائبریری میں جمع ہوں گی۔